د رحمان تمام غزل دے انتخاب

رحمان بابا

خطۂ افغاناں نے ہر دور میں کئی نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے، جن پر پشتون ہمیشہ فخر کرتے رہے ہیں۔ پشتو زبان کے کلاسک شعرا میں اگر ایک طرف خوشحال خان خٹک نے بہ حیثیت شاعر ادیب اور صاحب سیف و قلم نام کمایا، اسی طرح شاعر انسانیت اور لسان الغیب حضرت عبدالرحمان بھی پشتونوں کے لیے ایک مسلح، واعظ اور ہیرو کا مقام رکھتے ہیں۔
پشتونوں میں رحمان بابا پشتو زبان کے سب سے زیادہ مقبول شاعر ہیں۔ بدقسمتی سے دیگر اہم شخصیات کی طرح ان کی تاریخ ولادت بارے پوری معلومات دستیاب نہیں۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ آپ خوشحال خٹک کے ہم عصر تھے۔ اگر چہ عمر میں خوشحال خان خٹک سے کم تھے۔ جائے ولادت بہادر خان نامی گاؤں واقع پشاور ہے۔

دیوان عبدالرحمان بابا
دیوان عبدالرحمان بابا

رحمان بابا کے والد کا نام عبدالستار خان تھا جو ایک روایت کے مطابق اپنے علاقے کے ایک متمول خان تھے۔ عبدالرحمان نوجوانی ہی میں فقیری اور تصوف کی طرف مائل تھے۔ علم دین حاصل کی۔ اس لیے بڑے خان کا یہ بیٹا ملا اور صوفی کہلایا۔ آپ اسلامی تعلیمات کے بڑے عالم اور متقی انسان تھے یہی وجہ ہے کہ پشتونوں میں ان کا بہت احترام رہا ہے اور اسی احترام کی وجہ سے انہیں ’’بابا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

رحمان بابا کا کلام نہایت سادہ، عام فہم اور آسان ہے۔ آپ کو کوئی بھی دیہاتی، شہری، تعلیم یافتہ اور اَن پڑھ ایسا پشتون نہیں ملے گا جس کو رحمان بابا کے کچھ اشعار زبانی یاد نہ ہوں۔ ان کے کلام کی پشتونوں میں اتنی قدر و منزلت ہے جس طرح ایرانیوں میں حافظ شیرازی کے کلام کی ہے۔ اس سلسلے میں رحمان بابا نے اپنی زندگی ہی میں خدا تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کا کلام زبانِ زد عام ہوجائے۔ یہ دعا خدا کے ہاں منظور بھی ہوئی۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
چہ کشور د افغانانو معطر شی
د ہر بیت مصرعہ مے زلفے د خوبان کڑے
بلکہ ایک موقعہ پر آپ شاعرانہ تعلی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خوشحالا اور دولتامے غلامان دی
زۂ رحمان پہ پشتو ژبہ عالم گیر یم
بابا ایک سچے عاشق رسولؐ تھے۔ چناں چہ آنحضرتؐ کی رفعت شان اور تکمیل صفات سے متعلق کہتے ہیں
خدائے ئے مہ گنڑہ بے شکہ چہ بندہ دے
نور ئے کل واڑہ صفات دی پہ ریختیا
جس طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے وجہ فضیلت صرف تقویٰ قرار دیا ہے، اسی طرح بابا بھی اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں
اورنگ زیب او شاہ جہان غوندے اشراف
صدقہ شہ د منصور غوندے نانداف
بابا عشق کو اس کائنات کی علت اور بنیاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں
دا دنیا دہ خدائے لہ عشقہ پیدا کڑے
د تمامو مخلوقاتو پلار دے دا
اس دوسرے شعر میں بابا عشق کو ایک عالم گیر بندھن سمجھتے ہیں اور نسلی اور قبائلی تفاخر کو رد کرکے عشق جیسا وسیع المشرب مسلک اختیار کرکے کہتے ہیں:
زۂ عاشق یم سرو کار مے دے لہ عشقہ
نہ خلیل نہ داؤد زے نہ یم ممند
بابا اگر چہ اپنے وقت کے گوشہ نشین انسان تھے، لیکن وقت کے سیاسی حالات سے بھی بے خبر نہ تھے۔ آپ نے اورنگ زیب عالم گیر اور شاہ عالم جیسے مغل بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغلوں اور پٹھانوں کے درمیان سخت چپقلش جاری تھی، اور مغلوں نے پٹھانوں پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا تھا۔ چناں چہ اس وقت کی سیاسی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
گور او اور او پیخور درے واڑہ یو دی
بابا دنیا سے لاپروا انسان تھے اورمال و دولت کو اللہ کی راہ میں لٹانے کی متمنی تھے فرماتے ہیں
دَ دلبرو صدقے لرہ ئے غواڑم
ھسے نہ چہ پہ دنیا پسے زہیر یم
بابا دنیا سے مستغنی، قلندرانہ شان میں جلوہ افروز ہیں لیکن تکبر اور ریا سے خدا کی پناہ مانگتے ہوئے کہتا ہے
دَ ریا خرقہ ئے خدائے مہ کڑہ پہ غاڑہ
رحمانؔ کوگ دستار وھلے قلندر دے

 رحمان بابا کا صرف ایک دیوان ہے جس نے اسے نام اور شہرت دوام بخشی۔ آپ کی شاعری، کلام اور پیغام میں زندگی کا فلسفہ اور انسانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے بلکہ نفسا نفسی اور خود غرضی کے اس دور میں بابا کا کلام مینارۂ نور ہے ۔
رحمان بابا کا صرف ایک دیوان ہے جس نے اسے نام اور شہرت دوام بخشی۔ آپ کی شاعری، کلام اور پیغام میں زندگی کا فلسفہ اور انسانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے بلکہ نفسا نفسی اور خود غرضی کے اس دور میں بابا کا کلام مینارۂ نور ہے ۔

افسوس کی بات ہے کہ جس مردم خیز مٹی سے رحمان بابا کا خمیر اُٹھا، جہاں سے آپ نے ساری دنیا کو اپنی آفاقی شاعری کے ذریعے امن و محبت، انسان دوستی اور رواداری کا پیغام دیا، پشتونوں کا وہی خطہ آج بد امنی اور غارت گری کا شکار ہے جس میں مبینہ طور پر دنیا کی سپر پاؤرز ملوث ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ امن کے وہ لمحات دوبارہ اس خطے میں پر آئیں۔ ہر سال ماہِ اپریل کے اواخر میں پشتون رحمان بابا کا عرس عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ اس موقعہ پر شعرا، اُدبا، علمائے دین دانشور اور خطیب حضرات بابا کے کلام کی روشنی میں فلاح دارین پانے کی تلقین کرتے ہیں۔ رحمان بابا کا صرف ایک دیوان ہے جس نے اسے نام اور شہرت دوام بخشی۔ آپ کی شاعری، کلام اور پیغام میں زندگی کا فلسفہ اور انسانوں کے لیے راہنمائی موجود ہے بلکہ نفسا نفسی اور خود غرضی کے اس دور میں بابا کا کلام مینارۂ نور ہے ۔ بقول رحمان بابا
پہ غزل کے خو یو شعر انتخاب وی
د رحمانؔ تمام غزل دے انتخاب