ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے ایک دلچسپ علمی سلسلے کی چند کتابیں چھوڑی ہیں۔ ان کتابوں سے آج تمام اردودان محققین استفادہ کر رہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اسلامی ریسرچ کی خاطر موضوعات ڈھونڈنے کے لیے ان سے اچھی کتابیں بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ چند کتابیں حاضرین کے سامنے دیے گئے چند لیکچرز کا مجموعہ ہیں جن کو ’’محاضرات‘‘ کانام دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک محاضراتِ حدیث ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ڈاکٹر غازی مرحوم نے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ذکر کیا ہے۔
لکھتے ہیں کہ فرانس کا ایک مشہور مصنف تھا جس کا نام ڈاکٹر مورس بکائی تھا۔ وہ ایک زمانے میں غالباً پورے فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ سائنس دان ہیں اور بہت بڑے ہارٹ سپیشلسٹ ہیں۔ وہ شاہ فیصل مرحوم کے ذاتی معالج تھے اور شاہ فیصل مرحوم کا علاج کرنے کے لیے ان کو وقتاً فوقتاً ریاض بلایا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ ان کو ریاض بلایا گیا، تو یہ سرکاری مہمان کے طور پر ہوٹل میں ٹھہرے اور کئی روز تک شاہ فیصل سے ملاقات کا انتظار کرتے رہے۔ ظاہر ہے کسی وقت بھی بادشاہ کی طرف سے ملاقات کا بلاوا آسکتا تھا، اس لیے کہیں آجابھی نہیں سکتے تھے۔ ہر وقت اپنے کمرے میں رہتے تھے کہ اچانک کوئی کال آئے گی، تو چلے جائیں گے۔ وہاں ہوٹل کے کمرے میں قرآن پاک کا ایک نسخہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے وقت گزاری کے لیے اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔ عیسائی تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ کبھی قرآن پاک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس انگریزی ترجمہ کی ورق گردانی کے دوران میں خیال ہوا کہ قرآن پاک میں بعض ایسے بیانات پائے جاتے ہیں جو سائنسی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً بارش کیسے برستی ہے؟ انسان کی ولادت کن مراحل سے گزر کر ہوتی ہے؟ اس طرح اور بھی کئی چیزوں کی تفصیلات کا تذکرہ تھا۔
چوں کہ وہ خود میڈیکل سائنس کے ماہر تھے اور سائنس ہی ان کا مضمون تھا، اس لیے انہوں نے ان بیانات کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ ایک بار پڑھنے کے بعد انہوں نے قرآن پاک کو دوبارہ پڑھا، تو ان مقامات پر نشانات لگاتے گئے، جہاں سائنس سے متعلق کوئی بیان تھا۔ چند دن وہاں رہے، تو پورے قرآن کا ترجمہ کئی بار پڑھا اور اس طرح کے بیانات نوٹ کرتے گئے۔ اس سے ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اسی طرح کے بیانات بائبل میں بھی ہوں اور ان کے ساتھ قرآن کے بیانات کا تقابل کیا جائے، تو دلچسپ چیز سامنے آسکتی ہے۔
انہوں نے واپس جانے کے بعد اس مشغلہ کو جاری رکھا اور بائبل میں جو اس طرح کے بیانات تھے، ان کی نشان دہی کی اور پھر ان دونوں بیانا ت کا تقابلی مطالعہ کیا۔ اس میں انہوں نے خالص سائنسی معیار سے کام لیا۔ ظاہر ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے اور قرآن کے ساتھ کوئی عقیدت مندی نہیں تھی۔ انہوں نے خالص Objectively اور خالص سائنسی تحقیق کے پیمانے سے قرآن پاک اور بائبل کے بیانات کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قرآن پاک میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات ہیں وہ سب کے سب درست ہیں اور بائبل میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات ہیں، وہ سب کے سب غلط ہیں۔
انہوں نے ان نتائج پر مشتمل ایک کتاب شائع کی: "The Bible Quran and Science” جس کا اردو اور انگریزی سمیت بہت سی زبانوں میں ترجمہ ملتا ہے۔ اس کتاب کے بعد اسلامیات میں ان کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور انہوں نے تھوڑی سی عربی بھی سیکھ لی۔ ڈاکٹر حمیداللہ سے ان کی مراسم اور روابط بڑھ گئے۔ دونوں پیرس میں رہتے تھے۔ بعد میں ان کو خیال ہوا کہ اسی طرح کا مطالعہ صحیح بخاری کا بھی کرنا چاہیے۔ انہوں نے صحیح بخاری کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ صحیح بخاری میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات تھے ان کی الگ سے فہرست بنائی۔ انہوں نے اس طرح کے غالباً سو بیانات منتخب کیے۔ ان سو بیانات کا ایک ایک کرکے جائزہ لینا شروع کیا اور یہ دیکھا کہ کس بیان کے نتائج سائنسی تحقیق میں کیا نکلتے ہیں؟ یہ سب بیانات جمع کرنے کے اور ان پر غور کرنے کے بعد انہوں نے ایک مقالہ لکھا جو ڈاکٹر حمیداللہ صاحبؒ کو دکھایا۔ یہ واقعہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے مجھے خود سنایا۔
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس مقالہ کو پڑھا، تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ صحیح بخاری کے جو سوبیانات میں نے منتخب کیے ہیں، ان میں سے اٹھانوے بیانات تو سائنسی تحقیق میں صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ دوبیانات غلط ہیں۔ ڈاکٹر مورس بکائی نے جن دوبیانات کو غلط قرار دیا تھا، ان میں سے ایک تو صحیح بخاری میں درج حضور اکرمؐ کا یہ ارشاد ہے جس میں آپؐنے فرمایا کہ جب کھانے میں کوئی مکھی گر جائے، تو اس کو اندر پورا ڈبو کر پھر نکالو۔ اس لیے کہ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہوتی ہے۔ تم دونوں پروں کو اس میں ڈبو دو، تاکہ شفا والا حصہ بھی کھانے میں ڈوب جائے۔ جب وہ گرتی ہے، تو بیماری والا حصہ کھانے میں پہلے ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر بکائی کا خیال تھا کہ یہ غلط ہے۔ مکھی کے کسی پر میں شفا نہیں ہوتی، مکھی تو گندی چیز ہے۔ اگر کھانے میں مکھی گر جائے، تو کھانے کو ضائع کردینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سائنسی طور پر غلط ہے ۔
دوسری بات جو انہوں نے غلط قرار دی، وہ بھی صحیح بخاری ہی کی روایت ہے۔ عرب میں ایک قبیلہ تھا عرنیین کا، بنو عرینہ کہلاتے تھے۔ یہ لوگ مشہور ڈاکو تھے اور پورے عرب میں ڈاکے ڈالا کرتے تھے۔ اس کے قبیلہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا یا اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور رسولؐ اللہ سے کچھ مراعات اور مدد مانگی۔ رسولؐ اللہ نے ا ن کو مدینہ میں ٹھہرنے کے لیے ٹھکانا دیا اور کچھ صحابہ کو ان کی مہمان داری کے لیے مقرر کیا۔ مدینہ کی آب وہوا ان کو موافق نہیں آئی اور وہ بیمار ہوگئے۔ بیماری کی تفصیل یہ بتائی کہ ان کے رنگ زرد ہوگئے، پیٹ پھول گئے اور ایک خاص انداز کا بخار جس کو آج کل "Yellow fever” کہتے ہیں، ان کو ہوگیا۔ جب رسولؐ اللہ نے یہ بیماری دیکھی، تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم مدینہ کے باہر فلاں جگہ چلے جاؤ۔ مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ تھی جہاں بیت المال کے سرکاری اونٹ رکھے جاتے تھے۔ وہاں جاکر رہو۔ اونٹ کا دودھ بھی پیو اور پیشاب بھی پیو۔ بات عجیب سی ہے، لیکن بخاری میں یہی درج ہے۔ چناں چہ انہوں نے یہ علاج کیا اور چند روز وہاں رہنے کے بعد ان کو شفا ہوگئی۔ جب طبیعت ٹھیک ہوگئی، تو انہوں نے اونٹوں کے باڑے میں رسولؐ اللہ کی طرف سے مامور چوکیدار کو شہید کردیا اور بیت المال کے اونٹ لے کر فرار ہوگئے۔ رسولؐ اللہ کو پتا چلا کہ یہ لوگ نہ صرف اونٹ لے کر فرار ہوگئے ہیں بلکہ وہاں پر متعین صحابیؓ کو بھی اتنی بے دردی سے شہید کیا ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے ہیں۔ گرم سلاخ ٹھونس کر آنکھیں پھوڑ دیں اور صحابیؓ کو گرم ریگستان کی گرم دھوپ میں زندہ تڑپتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور وہ بے چارے وہیں تڑپ تڑپ کر شہید ہوگئے ہیں، تو حضورؐ کو یہ سب سن کر بہت دکھ ہوا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس پر بہت غصہ آیا۔ حضورؐ نے صحابہ کو ان کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا اور وہ لوگ گرفتار کرکے قصاص میں قتل کردیے گئے۔
اس پر مورس بکائی نے ڈاکٹر حمیداللہ سے کہا کہ یہ بھی درست نہیں ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ غلط ہے۔ کیوں کہ پیشاب تو جسم کی مسترد کردہ شے ہے۔ انسانی جسم خوراک کا جو حصہ قبول نہیں کرسکتا اسے جسم سے خارج کر دیتا ہے۔ ہر مشروب کا وہ حصہ جو انسانی جسم کے لیے ناقابلِ قبول ہے، تو جسم سے خارج ہوجاتا ہے اور اسی طرح جانور کا پیشاب بھی انسانی جسم کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس سے علاج کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر حمیداللہ نے اس کے جواب میں ڈاکٹر مورس بکائی سے کہا کہ میں تو سائنس دان ہوں، نہ میڈیکل ڈاکٹر۔ اس لیے میں آپ کی ان دلائل کے بارے میں سائنسی اعتبار سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک عام آدمی کے طور پر میرے کچھ شبہات ہیں جن کا آپ جواب دیں، تو پھر اس تحقیق کو اپنے اعتراضات کے ساتھ ضرور شائع کر دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے میٹرک میں سائنس کی ایک دوکتابیں پڑھی تھیں۔ اس وقت مجھے کسی نے بتایا تھا کہ سائنس دان جب تجربات کرتے ہیں، تو اگر ایک تجربہ دومرتبہ صحیح ثابت ہوجائے، تو سائنس دان اس کو پچاس فیصد درجہ دیتا ہے اور جب تین چار مرتبہ صحیح ثابت ہوجائے، تو اس کا درجہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح چار پانچ مرتبہ کے تجربات میں بھی اگر کوئی چیز صحیح ثابت ہوجائے، تو آپ کہتے ہیں کہ فلاں بات سو فیصد صحیح ثابت ہوگئی۔ حالاں کہ آپ نے سو مرتبہ تجربہ نہیں کیا ہوتا۔ ایک تجربہ تین چار مرتبہ کرنے کے بعد آپ اس کو درس مان لیتے ہیں۔ ڈاکٹر مورس بکائی نے کہا کہ ہاں واقعی ایسا ہی ہے۔ اگر چار پانچ مرتبہ تجربات کا ایک ہی نتیجہ نکل آئے، تو ہم کہتے ہیں کہ سو فیصد یہی نتیجہ ہے۔ اس پر ڈاکٹر حمیداللہ نے کہا کہ جب آپ نے صحیح بخاری کے سو بیانات میں سے اٹھانوے تجربہ کرکے درست قرار دے دیے ہیں، تو پھر ان دو نتائج کو بغیر تجربات کو درست کیوں نہیں مان لیتے؟ جب کہ پانچ تجربات کرکے آپ سو فیصد مان لیتے ہیں۔ یہ بات تو خود آپ کے معیار کے مطابق غلط ہے۔ ڈاکٹر مورس بکائی نے اس کو تسلیم کیا کہ واقعی ان کا یہ نتیجہ اور یہ اعتراض غلط ہے۔
دوسری بات ڈاکٹر حمیداللہ نے یہ کہی کہ میرے علم کے مطابق آپ میڈیکل سائنس کے ماہر ہیں۔ انسانوں کا علاج کرتے ہیں۔ آپ جانوروں کے ماہر تو نہیں ہیں، تو آپ کو پتا نہیں کہ دنیا میں کتنے قسم کے جانور پائے جاتے ہیں؟ پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ علم حیوانات میں کیا کیا شعبے اور کو ن کون سی ذیلی شاخیں ہیں اور ان میں کیا کیا چیزیں پڑھائی جاتی ہیں؟ لیکن اگر علم حیوانات میں ’’مکھیات‘‘ کا کوئی شعبہ ہے، تو اس شعبہ کے ماہر نہیں ہیں۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں؟ کیا آپ نے کوئی سروے کیا ہے کہ دنیا میں کس موسم میں کس قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں؟ جب تک آپ عرب میں ہر موسم میں پائی جانے والی مکھیوں کا تجربہ کرکے اور ان کے ایک ایک جز کا معائنہ کرکے لیبارٹری میں چالیس پچاس سال لگاکر نہ بتائیں کہ ان میں کسی مکھی کے پر میں کسی بھی قسم کی شفا نہیں ہے، اس وقت تک آپ یہ مفروضہ کیسے قائم کرسکتے ہیں کہ مکھی کے پر میں بیماری یا شفا نہیں ہوتی؟
ڈاکٹر مورس بکائی نے اس سے بھی اتفاق کیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ تحقیق کرکے یہ ثابت بھی کردیں کہ مکھی کے پر میں شفا نہیں ہوتی، تو یہ کیسے پتا چلے گا کہ چودہ سو سال پہلے ایسی مکھیاں نہیں ہوتی تھیں؟ ہوسکتا ہے ہوتی ہوں، ممکن ہے ان کی نسل ختم ہوگئی ہو۔ جانوروں کی نسلیں تو آتی ہیں اور ختم بھی ہوجاتی ہیں۔ روز کا تجربہ ہے کہ جانوروں کی ایک نسل آئی اور بعد میں وہ ختم ہوگئی۔ تاریخ میں ذکر ملتا ہے اور خود سائنس دان بتاتے ہیں کہ فلاں جانور اس شکل کا اور فلاں اُس شکل کا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر مورس نے اس کو بھی تسلیم کیا۔
پھر ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضورؐ نے اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا، حالاں کہ شریعت نے پیشاب کو ناپاک کہا ہے۔ بالکل صحیح ہے۔ یہ حیوانی بدن کا مسترد کردہ مواد ہے۔ یہ بھی درست ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں بطور ایک عام آدمی (layman) کے یہ سمجھتا ہوں کہ بعض بیماریوں کا علاج تیزاب سے بھی ہوتا ہے۔ دواؤں میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتے؟ جانوروں کے پیشاب میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتا؟ ہوسکتا ہے کہ بعض علاج جو آج کل خالص اور آپ کے بقول پاک ایسڈ سے ہوتا ہے، تو اگر عرب میں اس کا رواج ہو کہ کسی نیچرل طریقے سے لیا ہوا کوئی ایسا لیکویڈ جس میں تیزاب کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو، وہ بطورِ علاج کے استعمال ہوتا ہو، تو اس میں کون سی بات بعید از امکان اور غیر سائنسی ہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج سے کچھ سال قبل میں نے ایک کتاب پڑھی تھی۔ ایک انگریز سیاح تھا جو پورے جزیرۂ عرب کی سیاحت کرکے گیا تھا۔ اس کا نام تھا ڈاؤٹی۔ 1924-25-26ء میں اس نے پورے عرب کا دورہ کیا تھا اور دو کتابیں لکھی تھیں، جو بہت زبردست کتابیں ہیں اور جزیرۂ عرب کے جغرافیہ پر بہترین سمجھی جاتی ہیں۔ ایک کا نام "Arabia Deserta” اور دوسرے کا نام "Arabia Petra” ہے، یعنی عرب کا صحرائی حصہ اور جزیرہ عرب کا پہاڑی حصہ۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے اتنی کثرت سے یہاں سفر کیاہے۔ یہ اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ جزیرۂ عرب کے سفر کے دوران میں ایک موقع پر میں بیمار پڑگیا۔ پیٹ پھول گیا، رنگ زرد پڑگیا اور مجھے زرد بخار کی طرح کی ایک بیماری ہوگئی، جس کا میں نے دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا لیکن کچھ اِفاقہ نہیں ہوا۔ آخرِکار جرمنی میں کسی بڑے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ جہاں تمہیں یہ بیماری لگی ہے، وہاں جاؤ۔ ممکن ہے وہاں کوئی مقامی طریقۂ علاج ہو یا کوئی عوامی انداز کا کوئی دیسی علاج ہو۔ کہتے ہیں کہ جب میں واپس آیا، تو جس بدو کو میں نے خادم کے طور پر رکھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ بیماری آپ کو کب سے ہے؟ میں نے بتایا کہ کئی مہینے ہوگئے ہیں اور میں بہت پریشان ہوں۔ اس نے کہا کہ ابھی میرے ساتھ چلیے۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک ریگستان میں اونٹوں کے باڑے میں لے جاکر کہا کہ آپ کچھ دن یہاں رہیں اور یہاں اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے علاوہ کچھ نہ پئیں۔ چناں چہ ایک ہفتہ تک یہ علاج کرنے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہوگیا۔ مجھے بہت حیرت ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے ڈاکٹر مورس بکائی سے کہا یہ دیکھئے کہ 1925-26ء میں یہ ایک مغربی مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ سابق طریقۂ علاج ہو۔ مورس بکائی نے اپنے دونوں اعتراضات واپس لے لیے اور اس مقالہ کو انہوں نے اپنے دونوں اعتراضات کے بغیر ہی شائع کردیا۔
قارئین! قرآن کریم یا حدیث کی کتابیں سائنس کی کتابیں نہیں ہیں۔ حدیث یا قرآن کو طب یا سائنس کی کتابیں قرار دینا ان کا درجہ گھٹانے کے مترادف ہے۔ قرآن و حدیث کا درجہ ان تجرباتی انسانی علوم سے بہت اونچا ہے۔ رسولؐ اللہ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ انسان کے دنیاوی و اخروی دونوں جہانوں کی فلاح کے لیے ہیں۔ تاہم اگر دیکھا جائے، تو آج سائنس کو جس قدر زندگی کا ایک اہم جزو مانا جاتا ہے، اس میں اسلام کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اسلام نے ہر دور میں اپنی حقانیت ظاہر کر دی ہے۔
نیز اسلام نے تحقیق پر کوئی روک نہیں لگائی بلکہ زمین و آسمان کے موجودات پر غور کرنے اور اس کے ذریعے خالقِ حقیقی تک پہنچنے کی تاکید بھی کی ہے۔
سو تحقیق کی آنکھ کو سونے مت دیجیے۔ اسے کھلا رکھیے اور قدرت کے ہر جلو میں اس کے کرشماتی حسن کا نظارا ڈھونڈیے!
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔