بلیک فرائڈے نہیں جمعۃ المبارک

نومبر کے آخری جمعرات میں یومِ شکرانہ (امریکہ کا ایک قومی تہوار) منانے کے بعد نومبر کے آخری جمعہ کو امریکہ و بعض مغربی ممالک میں ’’بلیک ڈے‘‘ (Black Day) کے نام سے منایا جاتا ہے۔ 1961ء سے اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ عیدِ شکرانہ (امریکہ کا ایک قومی تہوار) کے بعد آنے والے جمعہ کو امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا (Philadelphia) میں بہت زیادہ ٹریفک ہونے کی وجہ سے اس دن کو ٹریفک پولس نے ’’بلیک ڈے‘‘ سے موسوم کیا۔ اب ہر سال نومبر کے آخری جمعہ میں شاپنگ سینٹروں میں بڑے بڑے آفر لگائے جاتے ہیں اور مغربی ممالک کے لوگ اِس دن سے اپنے مذہبی تہوار ’’کرسمس‘‘ کے لیے شاپنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ امریکہ میں 2005ء سے یہ دن خریداری کے اعتبار سے سال کا سب سے زیادہ مصروف دن بنتا جا رہا ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں اس جمعہ کو ’’وہائٹ فرائڈے‘‘(White Friday) سے موسوم کرنا چاہیے۔ کیوں کہ وہاں کے تاجروں کو اربوں کھربوں ڈالر کا فائدہ اسی دن ہوتا ہے۔ مغربی لوگوں کا اس جمعہ کو بلیک ڈے سے موسوم کرنے سے اسلام میں جمعہ کے مقام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ شریعت اسلامیہ میں قیامت تک اس دن کو تمام دونوں کا سردار قرار دیا گیاہے، مگر افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی ہر ادا مشرقی ممالک کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔ چناں چہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے بعض ہمارے بھائی بھی نومبر کے آخری جمعہ کو ’’بلیک ڈے‘‘ سے موسوم کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو تمام دنوں پر فوقیت دی ہے۔ چناں چہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآنِ کریم میں سورۃ نازل ہوئی ہے جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی، اِن شاء اللہ۔ نبی اکرمؐ نے جمعہ کے دن کو تمام دنوں سے افضل قرار دیا۔ اسلام نے جمعہ کے دن کو ہفتہ کی عید قرار دیا، چناں چہ نمازِ جمعہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسی دن پیدا کیا۔ اسی دن اُن کو زمین پر اتارا اور اسی دن انہیں موت دی۔ اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی اللہ سے مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت و فضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی۔ جمعہ وہ دن ہے جس کے متعلق رحمۃ للعالمینؐ نے فرمایا: ’’جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
جس جمعہ کے افضل، بہتر اور بابرکت ہونے کے متعلق قرآن وحدیث میں واضح دلائل موجود ہیں، تو وہ کیسے ’’بلیک ڈے‘‘ ہوسکتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جمعہ کے متعلق چند سطریں تحریر کر رہا ہوں تاکہ مسلم نوجوان مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کسی بھی جمعہ کو ’’بلیک ڈے‘‘ سے موسوم کرنے کی غلطی نہ کریں۔
٭ جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا:۔ اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں۔ ٭ جمعہ، جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جمع ہونا۔ کیوں کہ مسلمان اس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امتِ مسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں، اس لیے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ ٭ چھے دن میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی، اس لیے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔ ٭ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، یعنی ان کو اس دن جمع کیا گیا۔
اسلام کا پہلا جمعہ:۔ یوم الجمعہ کو پہلے یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ نبی اکرمؐ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور سورۃ الجمعہ کے نزول سے قبل انصار صحابہ نے مدینہ منورہ میں دیکھا کہ یہودی ہفتہ کے دن اور نصاریٰ اتوار کے دن جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں۔ لہٰذا سب نے طے کیا کہ ہم بھی ایک دن اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوں۔ چناں چہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمعہ کے دن لوگ جمع ہوئے، حضرت اسعد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ نے دو رکعات نماز پڑھائی۔ لوگوں نے اپنے اس اجتماع کی بنیاد پر اس دن کا نام یوم الجمعہ رکھا ۔ اس طرح سے یہ اسلام کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)
نبی اکرمؐ کا پہلا جمعہ:۔ نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت مدینہ منورہ کے قریب بنو عمروبن عوف کی بستی قبا میں چند روز کے لیے قیام فرمایا۔ قبا سے روانہ ہونے سے ایک روز قبل جمعرات کے دن آپؐ نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ جمعہ کے دن صبح کو نبی اکرمؐ قبا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے، تو جمعہ کا وقت ہوگیا، تو آپؐ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھایا جہاں اب مسجد (مسجد جمعہ) بنی ہوئی ہے۔ یہ نبی اکرمؐ کا پہلا جمعہ ہے۔ (تفسیر قرطبی)
جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق چند احادیث:۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں سارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر کے دن سے بھی زیادہ مرتبہ والا ہے۔ اس دن کی پانچ باتیں خاص ہیں: پہلی، اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ دوسری، اسی دن ان کو زمین پر اتارا۔ تیسری اسی دن ان کو موت دی۔ چوتھی، اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اللہ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں بشرط یہ کہ کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے۔ پانچویں، اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے اس لیے کہ قیامت جمعہ کے دن ہی آئے گی۔ (ابن ماجہ)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، سورج کے طلوع وغروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں، یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے۔ (صحیح ابن حبان)
رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا، مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اس دن کو تمہارے لیے عید کا دن بنایا ہے، لہٰذا اس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، اللہ کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ (طبرانی ، بزار)
جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی۔ (زاد المعاد ۱ / 387)
جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کا تعین: رسولؐ اللہ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا، اس میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے، تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپؐ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے۔ (بخاری)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔ (مسلم)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ مسلمان بندہ جو مانگتا ہے، اللہ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں اور وہ گھڑی عصر کے بعد ہوتی ہے۔ (مسند احمد)
مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علما نے دو وقتوں کی تحدید کی ہے: ایک، دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کے لئے بیٹھتا ہے۔ دوسرا، غروبِ آفتاب سے کچھ وقت قبل۔
نماز ِجمعہ کی فضیلت:۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں جب کہ ان اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے۔ (مسلم) یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لیے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران میں خاموش رہتا ہے، تو اس جمعہ سے گذشتہ جمعہ تک، اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (مسلم)
جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جلدی پہنچنا: رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرتا ہے، یعنی اہتمام کے ساتھ پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے۔ گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے، تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔ (بخاری ، مسلم)
یہ فرصت(گھڑی) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علما کی چند آرا ہیں، مگر خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حتی الامکان مسجد جلدی پہنچیں۔ اگر زیادہ جلدی نہ جاسکیں، تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ضرور مسجد پہنچ جائیں۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، جب جمعہ کا دن ہوتا ہے، تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے، تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ (مسلم)
خطبۂ جمعہ:۔ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل دو خطبے دیے جائیں، کیوں کہ نبی اکرمؐ نے ہمیشہ جمعہ کے دن دو خطبے دیے۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے۔ (مسلم)
جمعہ کی نماز کا حکم:۔ جمعہ کی نماز ہر اس مسلمان، صحت مند، عاقل، بالغ مردکے لیے ضروری ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو، جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض کے لیے جمعہ کی نماز ضروری نہیں۔ البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں، تو نماز ادا ہوجائے گی۔ ورنہ ان حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔
اگر آپ صحرا میں ہیں جہاں کوئی نہیں، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں، تو آپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔ نمازِ جمعہ کی دو رکعات فرض ہیں، جس کے لیے جماعت کی نماز شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعات میں جہری قرأت ضروری ہے۔ نمازِ جمعہ میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ یا الجمعہ اور المنافقون کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔
غور فرمائیں کہ اتنی فضیلتوں وبرکتوں والا دن ’’بلیک ڈے‘‘ کیسے ہوسکتاہے؟

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔