(سنڈاکئی بابا کی تصویر خیالی ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات کے معاملات میں سنڈاکئی بابا کو جو عمل دخل حاصل تھا، وہ سب پر عیاں تھا۔ ان کی شخصیت اور حیثیت عبدالجبار شاہ کے عہد سے پہلے اور اُس کے دوران لوگوں کو یکجا کرنے کا بڑا ذریعہ تھی۔ لوگوں کے ذہنوں پر ان کا ایسا اثر تھا کہ اگر وہ مستقل طور پر سوات میں قیام کرتے، تو یقینا سیدو بابا کی حیثیت ماند پڑجاتی۔ میاں گل برادران اور سیدو بابا مزار کے نگران ابوبکر المعروف "پاسَنئی ملا” نے علی الاعلان اُن کی مذمت کی۔ اپنے اثر و رسوخ اور انگریز حکومت و میاں گل برادران کی مخالفت میں حاجی صاحب آف ترنگزئی کے ساتھ ہم کاری کی وجہ سے وہ ایک ناپسندیدہ شخصیت قرار پائے۔ میاں گل برادران نے الزام لگایا کہ سنڈاکئی بابا، حاجی صاحب آف ترنگزئی اور ان کے ہم کار لوگوں اور اسلام کے لیے صرف مصیبتوں کا باعث بنے ہیں اور یہ کہ وہ جس قدر جلد بے اطمینانی پھیلانے سے باز آجائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ "پاسنئی ملا” نے ان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ حاجی صاحب آف ترنگزئی، سنڈاکئی ملا اور ان کی طرح کے دیگر ملاؤں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ جب اور جہاں چاہیں اُن سے مناظرہ کرکے دیکھ لیں۔ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان پر ثابت کر دیں گے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اور کر رہے ہیں وہ اسلام کے اُصولوں کے خلاف ہے۔‘‘
جب شامیزئی، سیبوجنی اور نیک پی خیل کے جرگوں نے میاں گل برادران سے نوابِ دیر کے خلاف تعاون مانگا اور اُس کے لیے انہیں بابوزئی علاقہ دینے کی پیش کش کی، تو انہوں نے اصولاً تو یہ بات مان لی لیکن اُس وقت تک قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف لینے سے انکار کیا جب تک کہ سنڈاکئی ملا سوات سے نکل نہ جائیں۔ لیکن اقتدار کی بھوک اور مایوسی نے انہیں بھی بالآخر سنڈاکئی بابا سے سلسلہ جنبانی پر مجبور کردیا۔ اس لیے کہ اُس کے تعاون و آمادگی کے بغیر انہیں اس تخت کا ملنا ممکن نہیں تھا۔ سنڈاکئی بابا سے مفاہمت کے بعد ہی عبدالودود کو اپنے مقصد میں کامیابی نصیب ہوئی۔ تاہم وہ سنڈاکئی بابا کے اثر و رسوخ سے حسد محسوس کرتا رہا اور جب اُس کی اپنی پوزیشن مستحکم ہوگئی، تو اُس نے اس رسوخ کو کم کرنے پر کام شروع کر دیا۔ بالآخر سنڈاکئی بابا سوات کوہستان چلے گئے۔
18 مارچ 1918ء کو عبدالودود نے نوابِ دیر کے باجوڑ میں مصروف ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواب کے ایک قلعہ "شوا” پر حملہ کیا، لیکن ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ سوات کا جرگہ سنڈاکئی بابا سے نواب کے خلاف مدد کی درخواست لے کر ان کی تلاش میں کوہستان گیا۔ وہ شامیزئی علاقہ میں آیا، جہاں اُس کی عبدالودود سے مفاہمت کرائی گئی۔ اُس نے مختلف گروہوں کے درمیان موجود اختلافات ختم کرائے اور وہ قلعے اور برجل جو صرف قبائلی رقابتوں اور مناقشوں کی وجہ سے تعمیر ہوئے تھے انہیں گرا دیا۔ اِن باتوں سے باالواسطہ عبدالودود کی پوزیشن مضبوط ہوئی۔ سنڈاکئی بابا قبائل کو نواب کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن نواب کی افواج کامیاب ہوئیں۔ اس کی وجہ عبدالودود میں جنگی و تزویراتی معاملات کے لیے مطلوبہ صلاحیت کا فقدان تھا۔
بہرحال سنڈاکئی بابا، حاجی صاحب آف ترنگزئی اور دیگر ملاؤں نے شیرین جان کی موت کے واقعہ کو سوات، دیر، جندول اور گندب میں نواب کے خلاف استعمال کیا۔ شیرین جان کی موت سے عبدالودود کو دوہرا فائدہ ہوا۔ ایک تو اس طرح ایک زبردست حریف کا خطرہ ختم ہوگیا اور دوسرا یہ کہ اسی چیز کو دشمن کی پوزیشن کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
سنڈاکئی بابا ایک بار پھر باجوڑ سے سوات آئے اور یہاں سوات بالا میں ا یک تطہیری مہم شروع کی۔ یہ بات کہی گئی ہے کہ "میاں گل نے سنڈاکئی ملا کو یہ مہم چلانے پر مجبور کیا” تاکہ ممکنہ طورپر انہیں لوگوں میں غیر مقبول بنا دیں۔ انہوں نے سوات میں رہائش اختیار کی اور باجوڑ جانے کی دعوت قبول نہیں کی۔ تاہم انہوں نے عبدالودود کی طرف سے سوات پر سے انگریز جہازوں کی پروازیں گزرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی اور پُراسرار سرگرمیوں میں ملوث رسالدار روخان الدّین سے خفیہ بات چیت کی۔ وہ عبدالودود سے اس لیے بھی ناراض تھے کہ سیبوجنی علاقہ میں ان کے دیہات انہیں واپس نہیں کیے گئے۔ عبدالودود اس معاملہ میں اُن پر الزام لگاتا تھا کہ وہ سوات میں اُس کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے سیبوجنی کے امیر خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
عبدالودود نے محسوس کرلیا تھا کہ "ایک پیر اور ایک حاکم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے حاکم صرف اور صرف ایک ہونا چاہیے۔ اور اگر آپ حاکم ہیں، تو آپ کو پیر کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہیے۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، تو پھر پیر کو ہٹانا چاہیے۔” اس لیے وہ سنڈاکئی بابا کے دیر فرار کا سبب بنے۔ وہاں سے سنڈاکئی بابا نے قبائل اور نواب کو عبدالودود کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ نواب اُن سے کھلواڑ کرتا رہا، لیکن سوات پر حملہ نہیں کیا۔ بہرحال نواب دیر میں ان کی موجودگی کو عبدالودود کے خلاف دباؤ بنائے رکھنے کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتا رہا۔ بالآخر سنڈاکئی بابا کی مسلسل مخالفانہ سرگرمیوں کی وجہ سے عبدالودود نے انہیں "کافر” قرار دے دیا۔ چھے فروری 1927ء کو پائندہ خیل علاقہ کے ایک علاقہ "کوہان” میں ان کی موت سے نوابِ دیر کی طرف سے سوات پر حملہ کے امکانات تقریباً معدوم ہوگئے۔
عبدالودود نے صرف سنڈاکئی بابا ہی کو فرار پر مجبور نہیں کیا بلکہ اُن دیگر تمام پیروں کو بھی سوات سے نکال باہر کیا جو لوگوں پر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے تھے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 85 تا 87 سے انتخاب)