بے آب و گیاہ سنگلاخ پہاڑوں اور انتہائی سخت گرم موسم میں زندگی کے روز و شب گزارنے والوں کے دل بھی اتنے ہی سخت تھے، جتنے ان سنگلاخ پہاڑوں کے پتھر۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری، ظلم و طغیانی اور رات کے اندھیروں میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر شبخون مار کر ان کو غلام بنا کر منڈیوں میں فروخت کرنے والے یہ انسان نما درندے، درندوں سے بھی بڑھ کر خون خوار تھے۔ ان کی فطرت بھی مسخ ہو گئی تھی کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہی ہاتھوں زندہ درگور کرتے تھے۔ بت پرستی اور پتھروں کی پوچا پاٹ ان کی عادت تھی۔ نہایت وحشی، تہذیب و تمدن سے دور اپنی قبائلی زندگی اور رسومات میں مست تھے۔ طویل خانہ جنگیاں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا ان کا معمول تھا۔ ان حالات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان پر رحم آگیا اور ان کے اندر ایک قائد و رہنما کو مبعوث کیا۔ مستقبل میں یہ قائدانہ کردار ادا کرنے والا شخص چالیس سال تک ان کے معاشرے میں رہا، لیکن اس نے اس جاہلانہ معاشرے کی کسی ایک بھی رسم اور رواج کو نہیں اپنایا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت گری تو دور کی بات وہ تو اپنے معاشرے کے افراد کے لیے ایک شفیق و رحیم اور ہمدرد و غمگسار انسان ثابت ہوا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک وہ اس معاشرے کی ہر برائی اور ہر ظلم اور غلط رسم و رواج سے دور اور پاک صاف رہا۔ جیسا گندے تالاب میں ایک خوبصورت اور خوشبو سے بھر پور پھول۔ اس کے بہترین اخلاق و کردار اور دیانت و امانت کی خوشبو اس متعفن اور غلیظ معاشرے میں ہر طرف پھیل گئی، اور لوگ اسے صادق و امین پکارنے لگے۔
جب بیت اللہ کی تعمیر کے موقع پر حجر اسود کی تنصیب پر قبائل میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہوا، تو اسی نوجوان کو حکم اور ثالث تسلیم کیا گیا اور اس کے فیصلے کو خوش دلی اور اطمینانِ قلبی کے ساتھ تسلیم کیا گیا۔ جب دیانت و امانت، معاملہ فہمی اور فہم و فراست کا چرچا پھیل گیا، تو ایک صاحبِ حیثیت ، باوقار اور معزز خاتون نے اس کو اپنے تجارتی کاروبار کا نگران مقرر کیا۔ اور جب اس پر اس نوجوان کی مزید خوبیاں اور اوصاف ظاہر ہوگئیں، تو وہ اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اس نوجوان کے ساتھ رشتۂ ازدواج قائم کیا اور اپنا سارا مال اس کے تصرف و تحویل میں دے دیا۔
اس دوران میں یہ نوجوان جو ایک پُرسکون عائلی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے ذہن نے اپنے ارد گرد کے حالات کے بارے میں سوچنا اور غورو فکر کرنا شروع کیا۔ یہ بنیادی سوالات جو اس کے ذہن و فکر پر حاوی تھے، یہ تھے کہ میں کون ہوں؟ میں کس طرح وجود میں آیا؟ مجھے کس نے پیدا کیا؟ میرا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ میرے اپنے معاشرے اور ہم جنسوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ یہ زمین و آسماں، یہ چاند ستارے، یہ کہکشاں، یہ نباتات، جمادات اور حیوانات کس نے پیدا کیے؟ شب و روز کا یہ سلسلہ، موسموں کا یہ تغیر و تبدل اور ان سب موجودات میں یہ ترتیب و توازن اور اختلاف و ازدواج کا مؤجد کون ہے؟ غور و فکر اور تدبر کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ہدایت کی روشنی لے کر اللہ کا فرشتہ آیا اور اس نے تمام ذہنی خلجاں اور ابہام کا خاتمہ کرکے ایک روشن اور منوّر شاہراہِ حیات کی نشان دہی کی۔
فرشتے اور انسان کے اس ملاپ اور قرب نے اس شخص کو ذہنی و قلبی اور جسمانی طور پر اتنا متاثر کیا کہ وہ جب ہانپتا کانپتا گھر پہنچا اور بیوی کو کہا کہ مجھے کمبل اوڑھاؤ، مجھے کمبل اوڑھاؤ۔ جب کمبل اوڑھایا گیا۔ تھوڑی دیر میں حواس بحال ہوئے، طبیعت پر سکون ہوئی، تو شریکِ حیات جس کے ساتھ پندرہ سال عائلی اور ازدواجی زندگی گزاری تھی، سے کہنے لگا کہ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ وہ جہاں دیدہ، سرد و گرم کشیدہ، سنجیدہ اور عقل مند شریکِ حیات جو پندرہ سالہ خانگی زندگی کی ہمراز اور تما م اندازو اطوار کی شاہد و گواہ تھی، کہنے لگی: ہر گز نہیں۔ اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ آپ تو غریبوں کی خدمت کرتے ہیں، مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں۔
قائد و رہنما بننے کے بعد یہ پہلی تصدیق تھی جو قائد کے کردار کے بارے میں سامنے آئی۔ اس کے بعد قائد نے عوام کو اپنا پیغام دینے کے لیے اس معاشرے کا ایک مروج قاعدہ استعمال کیا اور ان کو ’’یا صباحا‘‘ پکار کر ایک جگہ جمع کیا اور اجتماعِ عام میں سے پوچھا کہ لوگوں اگر میں تمہیں بتاؤں کہ پہاڑ کی دوسری طرف ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا تم میری بات کو مان لوگے؟ سب نے بالاتفاق یک آواز ہو کر کہا کہ ہاں، ہم تمہاری بات مان لیں گے۔ کیوں کہ تم صادق و امین ہو۔ جب دعوت کا کام شروع ہوا، تو علاج کے لیے وہ نسخہ بروئے کار لایا گیا جو حرا سے لے کر آئے تھے۔
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسائل بہت سارے موجود تھے۔ بدامنی، قومی انتشار، معاشی مسئلہ، امیر و غریب کا فرق، خانہ جنگی وغیرہ، لیکن بنیادی اور اصل بیماری کی تشخیص کی گئی اور صرف اسی پر توجہ مرکوز کی گئی۔ وہ تشخیص یہ تھی کہ ایک قادر و توانا حاکمِ حقیقی، رحیم و کریم اور شفیق و مہربان رب کو چھوڑ کر خود ساختہ دیوی دیوتاؤں کی بندگی اصل بیماری تھی۔ لہٰذا اس بیماری کے علاج کے لیے صرف ایک اِلہ اور رب کی بندگی اور اطاعت ہی میں تمام بیماریوں کا علاج تجویز کیا گیا اور ایک ہی نعرہ لگایا گیا کہ ’’قولو لا الہ الااللہ تفلحوا۔‘‘ یعنی ایک اللہ کی بندگی اور اطاعت میں تمام بیماریوں کا علاج ہے۔
آبائی رسوم و روایات اور اوہام و خرافات کا عادی معاشرہ ایک نامانوس اور اجنبی نعرے اور دعوت کو سن کر بھڑک اٹھا۔ بڑوں، سرداروں، مذہبی اجارہ داروں اور پروہتوں کو اپنا منصب اور مفاد خطرے میں نظر آنے لگا اور انہوں نے مخالفت اور مذاحمت پر کمر باندھ لی، لیکن دعوت اتنی زوردار، جان دار اور پُراثر تھی اور داعی کے کردار و عمل میں اتنی کشش، خوبصورتی اور جاذبیت تھی کہ روشنی پھیلتی گئی اور اندھیرا چھٹتا گیا۔ قیادت اتنی بہترین تھی اور قائد اتنا بیدا ر مغز تھا کہ بہترین حکمتِ عملی کے ذریعے دعوت کے بعد تنظیم اور تربیت کے ذریعے ایسے افراد تیار کیے کہ وہ اس تحریک کی کامیابی کے لیے جان و مال، عزیز و اقارب اور قوم و وطن سب کچھ چھوڑ نے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور تیرہ سال کی جدو جہد، جان و مال کی عظیم قربانیوں اور جسمانی تشدد کے بعد آخرِکار وہ ایک ایسا معاشرہ اور حکومتی ڈھانچا تیار کرنے میں کامیاب ہوا، جس نے اپنے زمانے کے دو بڑی تہذیبوں کو تبدیل کرکے انسانی عدل و مساوات پر مشتمل معاشرہ قائم کیا۔ جس میں جان و مال، عزت و آبرو، معاشی تحفظ، عزتِ نفس اور انسانی ترقی و نشونما کی تمام خوبیاں، بھلائیاں اور خیر و برکت موجود تھی۔ اس روشنی کا سفر قیامت تک جاری رہے گا اور یہ روشنی اِن شاء اللہ ہر دور کو منور کرتی رہے گی۔ یہ ہیں ہمارے قائد اور یہ ہیں ہم سب کے قائد
بمصطفیٰ برساں خویش راکہ دین ہمہ اوست
گر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔