گذشتہ دنوں سے پاکستان میں ایک عجیب طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے کارکنان دھڑا دھڑ ملک کے معروف اور معتبر صحافی ’’سلیم صافی‘‘ کی ذات کو مسلسل تنقید، تضحیک اور تذلیل کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے نوجوان کارکنان کے حوالہ سے پہلے سے ہی یہ تاثر پھیل چکا ہے کہ وہ اخلاق سے عاری ہیں۔ جملہ کارکنان کی بات تو نہیں کر رہا، لیکن جس طرح حالیہ دنوں میں ان کارکنان کا رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کے اکثریتی کارکنان کا اخلاقی معیار کیا ہے؟ یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب جیو نیوز کے ایک پروگرام میں سلیم صافی نے کہا کہ ’’وزیراعظم صاحب نے پہلا حکم یہ صادر کیا کہ میاں نوازشریف کے دور میں وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کا حساب لایا جائے۔ جواب میں ان کو بتایا گیا کہ شاہد خاقان عباسی تو کبھی ایک دن کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہے اور اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں وہ ذاتی گھر میں ہی قیام کرتے رہے جب کہ میاں نواز شریف نے بطورِ وزیراعظم اپنے اور خاندان کے خرچے کے سارے بل ادا کر دیے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو یقین نہیں آرہا تھا لیکن جب ان کو میاں نوازشریف کی طرف سے سرکار کے خزانے میں جمع کردہ چیک بھی دکھائے گئے، تو وہ حیرت زدہ اور خاموش ہوگئے۔‘‘
بس پھر کیا تھا، ہر جگہ سلیم صافی کی ذات کو مسلسل نشانہ بنایا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فوٹو شاپ کی جعلی تصاویر سے لے کر سلیم صافی کی ذات سے جڑے ہر پہلو کو منظرِ عام پر لاکر ان کی تذلیل کی گئی۔ ان پر لفافہ صحافی جیسے الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی گئی۔
یہاں ایک بات بتاتا چلوں۔ ہر صحافی ’’لفافہ‘‘ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ایسے اَن گنت صحافی موجود ہیں جو ایمان داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔ دن رات ایک کرکے آپ کو باخبر رکھتے ہیں۔ ایسے میں کسی صحافی پر گھر بیٹھے، بنا کسی ثبوت کے لفافہ صحافی کا الزام بار بار لگایا جائے، تو یہ ایک صحافی کے لیے کسی گالی سے کم نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلیم صافی کو خود احتساب کے لیے پیش ہونا پڑا اور ببانگ دُہل اعلان کیا کہ تمام صحافیوں کا احتساب کیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن بنائیں اور مجھ پر کسی قسم پیسے لینے کا الزام ثابت ہو، تو پھانسی دے دیں۔
آپ تو ٹھہرے ہاتھ میں پانچ چھے انچ کا سمارٹ فون لیے ’’گمنام کی بورڈ مجاہد‘‘، مگر کسی عالمی شہرت یافتہ صحافی کی جانب سے ایسا چیلنج بڑے دل گردے کا کام ہے۔ سلیم صحافی نے عمران خان کی ذات پر بات نہیں کی۔ انہوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا، پھر اُس کا ثبوت پیش کیا۔ اب یہاں دو صورتیں بنتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اگر کسی صحافی کی بات آپ کے ہاں محض الزام تراشی ہے، تو اس کی تردید کردیں، بات ختم۔ دوسری یہ کہ تردید کے بعد بھی اگر وہ صحافی مسلسل اپنی بات پر اَڑا رہے، تو اس کو لیگل نوٹس بھیج دیں۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ کرے گی کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو یقین جانیں پھر آپ کو اپنی تربیت ظاہر کرنے کا موقعہ ملے گا، نہ کوئی آپ کی تربیت پر سوال ہی اٹھائے گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی تنقید کرنے لگ گئے جو نہ تو اپنے اہل و عیال کے علاوہ لوگوں کے بیچ کوئی خاص تشخص رکھتے ہیں اور نہ ان کی ذہنی پختگی اس سطح کی ہے کہ یہ تنقید کریں۔ تنقید ایک فن ہے۔ اس کے لیے بھی تعلیم و تربیت درکار ہوتی ہے۔ تنقید کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ ایک معتبر صحافی کے مقابلے میں ان کی چیخیں محسوس نہیں ہوپائیں گی۔ اس لیے یہ مسلسل مختلف طریقوں سے سلیم صافی کی ذات کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو یہ یا تو تردید کرکے چپ بیٹھتے یا پھر سلیم صافی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ معذرت کے ساتھ، خصوصاً بعض ناپختہ ذہن کے حامل پی ٹی آئی کے ’’پختون کارکنان‘‘ اُس جاہل کا کردار ادا کر رہے ہیں جو جس شاخ پر بیٹھا ہو، اُسی کو کاٹنے کے درپے ہو۔
یاد رہے کہ جس سلیم صافی پر آپ ن لیگ کے لفافہ صحافی کا الزام لگارہے ہیں، یہ وہی سلیم صافی ہیں جنہوں نے سی پیک کے معاملے میں پختون بیلٹ کو نظر انداز کرنے پر شدید مخالفت اور مزاحمت کی تھی۔ یہ وہی سلیم صافی ہیں جو احسن اقبال کے رو بہ رو کھڑے ہوکر پختونوں کا حق مانگتے رہے۔ یہ وہی سلیم صافی ہیں جو سی پیک میں پختون کا حق لینے کے لیے پوری نون لیگ کے مخالف رہے، جنہوں نے اُس وقت ایک طرح سے پرسنل ہوکر پختونوں کی بات کی، جب کوئی بھی باہمت پختون اس معاملے میں خاص دلچسپی کا اظہار کرنے سے کتراتا تھا۔
چند ابن الوقت صحافیوں کو چھوڑ کر آج ملک کا ہر معتبر صحافی سلیم صافی کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہاں تک کہ سلیم صافی کے مخالفین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہیں، جن میں جھوٹ، دھوکا اور فریب نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں بعض صحافی آئے روز کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں اور پارٹی قائدین کے خلاف پرسنل ہوجاتے ہیں، ان کے بارے میں ایسی منظم مہم نہیں چلی جس طرح سلیم صافی کے خلاف صرف ایک دعویٰ مع ثبوت کے چلی، جس میں وزیر اعظم عمران خان کی ذات پر حملہ کیا گیا اور نہ کوئی غیر مناسب بات ہی کی گئی۔ پتا نہیں محض ایک دعوے پر پی ٹی آئی کارکنان کیوں اتنا بلبلا اٹھے ہیں؟ جو خود ہی نہ صرف اپنی ذات بلکہ پوری پارٹی کی ساکھ کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ راقم بھی گالیوں کا نشانہ بنے ، عرض یہ ہے کہ یہاں کسی کی حمایت یا مخالفت کی بات نہیں ہو رہی۔ بحث یہ ہے کہ اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے تنقید برداشت کی جائے اور اس کا جواب دیا جائے، تنقید کے نام پرتذلیل نہ کی جائے۔ آپ کے منھ سے نکلا ہوا ہر لفظ آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔