’’میں رضاکارانہ اپنی خدمات حکومت پاکستان کو پیش کرتا ہوں۔ میں اپنی ملازمت سے قبل از وقت سبکدوش ہوا ہوں۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا مقصد محض اللہ کے دین کی خدمت کرنا اور اسے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے کے لیے مکمل فراغت حاصل کرنا تھا۔ درس و تدریس میرا پیشہ ہے۔ دورانِ ملازمت بھی دعوت الی اللہ کا فریضہ بخوبی اور احسن طریقے سے انجام دیتا رہا ہوں۔ کینیا، صومالیہ، سوڈان، جنوبی افریقہ، سوازی لینڈ، موزمبیق، بحرین الخلیج، قطر، حجازِ مقدس، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، فلپائن، ملیشیا اور افغانستان سمیت سترہ ممالک کا سفر کرچکا ہوں۔ چار زبانوں انگریزی، عربی، اردو اور پشتو بولنے پر عبور حاصل ہے اور باقی کئی ایک زبانیں جزوی طور پر سمجھتا اور بول سکتا ہوں۔ میں نے دنیا کمانے سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ چاہتا، تو سبکدوشی کے بعد ذاتی کاروبار شروع کرتا لیکن دعوتِ تبلیغ کے کام میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو، اسی لیے اجتناب کیا۔‘‘
قارئین، یہ الفاظ میرے ایک دوست اور سابق استاد محترم میاں محمد نواب کے تھے جنہیں وہ منگل کی رات میسنجر کال پر میرے گوش گزار کر رہے تھے۔ وہ مجھ سے اپنی خدمات پیش کرنے میں مدد کی اپیل کر رہے تھے کہ میں ان کا پیغام حکومت تک پہنچا دوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کھانا پینا، چائے پانی سمیت ہر خرچہ اپنی جیب سے ادا کریں گے ۔
’’یہ تبدیلی آپ میں کیسے آئی؟‘‘ میں نے حیران ہوکر پوچھا، تو کچھ ان الفاظ کے ساتھ وہ گویا ہوئے کہ 18 اگست کی شب کو میں نے عمران خان کا خطاب سنا، تو ایسا لگا کہ بغیر داڑھی کے کوئی دین دار اور ملک و قوم کا خیرخواہ شخص قوم سے مخاطب ہے۔ ان کے خطاب میں ملک و قوم کے لیے درد پوشیدہ تھا۔ نہایت پُراثر اور دل کو چھو لینے والا بغیر کسی لگی لپٹے کے، گھسے پھٹے اور بور کر دینے والے فقروں کے تکلّفات سے مبرا خطاب تھا ۔ وہ دل سے بول رہے تھے۔ ان کی باتیں سیدھی اور سچی تھیں اور سیدھا دل میں اتر رہی تھیں۔ ملک کے تمام اہم مسائل اور ایشوز پر بات کی، قوم کو سمجھایا بھی اور ان مسئلوں اور مشکلوں سے نکلنے کا حل بتاکر قوم کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اقتدار کی کرسی بڑی ظالم شے ہے۔ یہ حاکموں کو موت سے بھی غافل کردیتی ہے، لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا شخص ہے جو اس کرسی پر بیٹھ کر موت کو نہیں بھولا۔ ریاستِ مدینہ کی بات کی اور خلفائے راشدین کے حوالوں سے ابتدا کی۔ ورنہ اس سے پہلے ہر وزیر اعظم کو عہدہ سنبھالتے ہی اپنی مراعات اور سہولیات کی فکر لگ جاتی ہے۔ خاندان کے افراد کو نوازنے اور کاروبار کو وسعت دینے کی فکر ہوتی ہے۔ یہ واحد عمران خان ہی ہے جنہوں نے ریاستی وسائل پر بوجھ بننا پسند نہیں کیا۔ انکار کیا اُن مراعات سے جو اُن سے پہلے وزرائے اعظم صاحبان کو حاصل تھیں۔ رشوت، بد عنوانی، اقربا پروری، بدیانتی، کک بیکس، کمیشن لینے کا عمل ان کے خون میں سرایت کرچکا تھا۔ ادارے بدانتظامی کا شکار اور یہاں کام نہ کرنے کی تنخواہ لی جاتی تھی، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ یوں ملک ستر سال بعد بھی پستی، جہالت، لاقانونیت اور غربت و افلاس کی دلدل سے نہیں نکل سکا۔‘‘
تو پھر آپ کی سوچ کیا ہے؟ میں نے پھر سوال کیا، تو کہنے لگے کہ ’’ایک طرف اگراعمالکم عمالکم‘‘ کا اثر ہے، تو دوسری طرف حکمرانوں کی سوچ، فکر اور عمل بھی عوام کی سوچ پر اثرانداز ہوتی ہے۔ حکمران اگر کرپٹ، راشی اور ظالم ہوں، تو عموماً پورا معاشرہ ان برائیوں کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے اور حکمران عادل اور منصف ہوں، تو انسان کیا حیوان بھی ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے زمانے میں امن و امان کی یہ صورتحال تھی کہ جب ایک بھیڑیے (درندے) نے ریوڑ سے بکری کو شکار کیا، تو چرواہا رونے لگا۔ وہاں موجود ایک شخص نے رونے کی وجہ پوچھی، تو کہا بکری کے لیے نہیں رو رہا بلکہ اس لیے رو رہا ہوں کہ خلیفۂ وقت اس جہان میں نہیں رہے۔ اس شخص نے تعجب سے پوچھا، آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو چرواہے نے جواب دیا کہ آج سے پہلے کبھی کسی بھیڑیے نے میری بکریوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اس شخص نے وقت اور تاریخ نوٹ کی، تو واقعی عمر بن عبدالعزیزؓ اس دن وفات پاچکے تھے۔ ریاستِ مدینہ کے خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اپنے کپڑے کے کاروبار کو ختم کیا، تاکہ بطورِ حکمران اس کے اثر و رسوخ سے کسی اور کا نقصان نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے انتہائی احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فراط کے کنارے کتا بھی پیاسا مرگیا، تو میں اللہ کو جواب دہ ہوں گا۔ جب کہ ہمارے حکمران ان ذمہ داریوں اور احساس سے بے بہرہ اور بالکل عاری نظر آئیں، البتہ ان میں صرف عمران خان کی شخصیت ایسی ہے جنہوں نے ریاستِ مدینہ کی بات کی، تو ساتھ اپنے ذاتی کاروبار نہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ 30 بلٹ پروف گاڑیوں سمیت کل 80 گاڑیوں اور 520 شاہی ملازمین کو کم کرکے دو سے کام چلانے کا عندیہ دیا۔ غریب عوام کے ٹیکس کی حفاظت اور ہزاروں ایکڑ رقبے پر پھیلے وزیر اعظم ہاؤس میں سکونت اختیار نہ کرنے کے ساتھ اپنا ذاتی کاروبار نہ کرنے کا اعلان بھی کیا اور اس خواہش کا اظہار بھی کہ میں رہوں یا نہ رہوں، میرے پاکستان میں ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جہاں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ یہ بہت گہری بات کہی ہے جس کا تعلق بھی مدینہ کی فلاحی ریاست سے ہے۔
قارئین کرام! یہ اکیلے میرے اس دوست کی سوچ میں تبدیلی کی بات نہیں بلکہ ایک ڈاکٹر صاحب نے امریکہ میں بیوی سمیت جاب کو خیرباد کہہ کر ملک کی خدمت کی ٹھان لی ہے جب کہ میرے کئی دوست جو ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی ہیں، وہ بھی اپنی بوریابستر گول کرچکے ہیں اور اب وہ ملک میں اپنی خدمات انجام دینے نکل پڑے ہیں، تو کئی دوست حکم کے منتظر ہیں۔ یہ عمران خان کی تقریروں کا اثر ہی تو تھا، جس کی وجہ سے جنونیوں نے عام انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جوق در جوق پاکستان کا رُخ کیا جب کہ ان میں کئی اعلا دماغ اور ذہین اشخاص کی یہ خواہش ہے کہ وہ بھی اپنی ملک و قوم کی دل و جان سے خدمت کریں۔ واقعی عمران خان کا خطاب ہر پاکستانی کے دل کی آواز تھی اور لوگوں نے پُرنم آنکھوں سے دیکھا۔ یہ ایک غیر روایتی متاثر کن خطاب تھا۔ صحت، تعلیم، پولیس اصلاحات، صاف پانی، ماحولیات، شجرکاری، ٹیکس نظام میں درستی، کرپٹ مافیا اور ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف ٹاسک فورس، سرکاری اسپتالوں اور سکولوں میں اصلاحات، لاوارث بچوں، بیواؤں اور یتیموں کی داد رسی اور انہیں فوری انصاف مہیا کرنے سمیت جن مختلف اصلاحات کی بات کی ہے، اگر ان میں بیس فیصد پر بھی عمل ہوا، تو ملک میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اب یہی وہ خوف ہے جس نے اپوزیشن جماعتوں کی رات کی نیند اور دن کا چین ختم کر دیا ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔