حالیہ پی ٹی ایم سے جڑے سیکڑوں مفروضوں میں ایک نیا اضافہ جھنڈے کے تنازعہ کی صورت میں سامنے آیا۔ سب پہلے تو پی ٹی ایم کے جلسوں میں متواتر دوسری بار جھنڈے کے تنازعہ کو پہلے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان تنازعات کے پسِ پردہ کہانی کیا ہے ؟
کچھ عرصہ پہلے سوات میں پی ٹی ایم کا جلسہ ہوا۔ جلسہ ابھی جاری ہی تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک متنازعہ ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ جلسہ گاہ میں موجود انتظامیہ ایک شخص کو جلسہ گاہ سے باہر کررہی ہے۔ اس شخص نے پاکستان کا جھنڈا تھاما تھا۔ ویڈیو کے سامنے آنے پر اچانک ایک شور مچ گیا۔ میں نے ویڈیو دیکھی، تو حیران رہ گیا۔ جس شخص کو اندر جانے سے روکا جارہا تھا، اسی شخص کی تصویر میں نے ویڈیو کے سامنے آنے سے پہلے دیکھی تھی، جس میں وہ جلسہ گاہ کے اندر جھنڈا تھامے مسکرا رہا تھا۔ میں الجھ گیا، اس لیے فوراً ایک صحافی دوست سے رابطہ کیا جو جلسہ گاہ میں موجود تھا۔ میں نے پوچھا یہ جھنڈے کی کیا کہانی ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ جھنڈا تھامے شخص جلسہ گاہ میں ہی موجود تھا، ادھر ادھر تصاویر بنوارہا تھا، لیکن تھوڑی دیر بعد وہ جلسہ گاہ میں جگہ جگہ جاکر منظور پشتین اور پی ٹی ایم کو گالیاں دینے لگا۔ انتظامیہ نے جواب میں اسے کچھ نہیں کہا، لیکن جب اس کی گالیوں اور مخالف نعروں میں شدت آگئی، تو انتظامیہ نے اسے باہر نکالنا میں ہی عافیت جانی۔
کل صوابی میں ایک بار پھر سوات طرز کا واقعہ دیکھنے کو ملا۔ بی بی سی کے رپورٹر اظہار اللہ نے موقعہ پر موجود ایک صحافی سے اس حوالے سے پوچھا، تو رپورٹر نے بھی یہی جواب دیا کہ وہ شخص گالیاں دے رہا تھا اور ماحول خراب کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ اس لیے اُسے نکالا گیا، ورنہ جلسے میں کئی لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھا۔ کسی نے انہیں کچھ نہیں کہا۔
قارئین کرام! مذکورہ واقعات کا جائزہ لیں، تو آپ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ معاملہ جھنڈے کا نہیں بلکہ جھنڈے کے ساتھ آنے والی گالیوں، طوفانِ بدتمیزی اور ماحول خراب کرنے والے اس شخصِ مخصوص کا ہے۔ اگر یوں ہی کسی ’’تخریب کار‘‘ کو جلسے میں مزید رہنے دیا جائے، تو ممکن ہے کہ جلسے میں موجود جذباتی کارکنان میں سے کوئی اس کے ساتھ الجھ جائے اور معاملہ مزید گھمبیر ہوجائے۔ اس لیے ماحول کو پُرامن بنانے کے لیے انتظامیہ کو مجبوراً ایسا قدم اٹھانا پڑتا ہے ۔
ایسے تنازعات کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ خیر، صرف ایک میز پر بیٹھ کر بات کرنے میں ہے۔ بات بھی ایسی جو قابلِ قبول ہو اور جس میں پیچھے ہٹنے کی روایت کو برقرار رکھنے سے گریز کیا جائے۔ میرے خیال سے منظور پشتین کی حمایت کرنے اور اس کے جلسوں میں دور دراز سے شرکت کرنے والے لاپتا افراد کے ہزاروں رشتہ داروں کو محض ایک ’’جھنڈا تنازعہ‘‘ سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ راقم کو اس کا اندازہ اسلام آباد کے دھرنے میں ہوگیا تھا۔ پی ٹی ایم کا اسلام آباد کا دھرنا ختم ہوا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ بڑی سیاسی شخصیات اور معروف نام ابھی سٹیج پر ہی موجود تھے کہ نیچے پنڈال میں لوگ ایک جانب تقریباً بھاگتے ہوئے چلنے لگے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سب منظور پشتین کے ساتھ ہاتھ ملانے اور سیلفیاں لینے دوڑ رہے تھے۔
رہی بات منظور پشتین کے مخالفین کی، تو جھنڈا تنازعہ ہو یا نہ ہو، مخالفت کرنے والے بہرحال مخالفت کرتے ہی ہیں۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔