لاہور میں شعرا،ا دیب اور دانشوراحباب مختلف ریسٹورنٹس میں اپنی محافل سجایا کرتے تھے، جن میں عرب ہوٹل، نگینہ بیکری، کافی ہاؤس اور ٹی ہاؤس شامل تھے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر باقی ریسٹورنٹ یکے بعد دیگرے بند ہوتے گئے، تو ادیبوں کا آخری ٹھکانا ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ رہ گیا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی یہ عمارت ایک معروف چائے خانہ تھی۔ جسے 1932ء میں ایک سکھ فیملی نے بنایا۔ اس جگہ کو بعد میں’’ینگ مینز کرسچن ایسوسی ایشن‘‘ (Young Men’s Christian Association, YMCA) کو دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جناب سراج الدین نے ’’وائی ایم سی اے‘‘ سے جگہ کرایہ پر لے کر اس کا نام ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ رکھا۔ اس طرح پاکستان بننے کے بعد بھی یہ چائے خانہ نہ صرف قائم رہا بلکہ یہاں لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں سے آنے والے ادیب، شاعر اور دانشور چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرتے تھے۔
یہاں شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کی مستقل بنیادوں پر محافل سجتیں۔ طویل عرصہ تک ادبی تنظیم ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ کا یہاں باقاعدہ اجلاس ہوتا رہا۔ یہاں ہونے والی تربیت نے بہت سی گمنام ہستیوں کو وقت کا نامور شاعر اور ادیب بنایا۔ یہ چائے خانہ فیض احمد فیضؔ، آغا شورش کاشمیری، ابنِ انشاؔ، احمد فرازؔ، سعادت حسن منٹو، میرا جیؔ، ناصرؔ کاظمی، منیرؔ نیازی، استاد امانت علی خان، صادقین، اے حمید، حمید اختر اور کمال احمد رضوی جیسی نادر ہستیوں کا میزبان رہا۔ اس کے مالکان نے کاروباری نقصان کی وجہ سے یہ ٹی ہاؤس بند کرکے ’’وائی ایم سی اے‘‘ کو واپس دے دیا۔ فروری 2012ء میں ’’وائی ایم سی اے‘‘ سے یہ بلڈنگ لے کر سرکاری تحویل میں دے دی گئی۔
کچھ عرصے کے لیے پاک ٹی ہاؤس بند ہوگیا، تو یہ اہلِ ادب کے لیے ایک سانحہ تھا۔ الحمرا ہال میں ادیبوں کے لیے بیٹھک بنائی گئی، مگر چند وجوہات کی بنا پر اس کو بھرپور پذیرائی نہ مل سکی۔ 8 مارچ 2013ء کو سابقہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سات سال بند رہنے والے پاک ٹی ہاؤس کا چائے پی کر دوبارہ افتتاح کیا۔ پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں، شعرائے کرام اور دانشوروں کی تصاویر دیواروں پر آویزاں کی گئی ہیں۔ ان میں سے اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پاک ٹی ہاؤس کو اب ضلعی حکومت کے زیرِ انتظام چلایا جا رہا ہے۔ (کتاب ’’لَہور، لَہور ہے‘‘ از عبدالمنان ملک کے صفحہ نمبر 80 سے انتخاب)