صلیبی جنگوں کے دور میں یہودیوں نے ایک اور مکروہ سازش کی جو کہ یہ تھی کہ آنحضرتؐ کے جسمِ اطہر کو روضۂ مبارک سے نکال کر کہیں اور پہنچا دیا جائے۔ یہ سلطان نورالدین زنگی کا دورِ حکومت تھا۔ مسلمان افواج شہنشاہِ جرمنی کانرڈ کی نو لاکھ لشکرِ کثیر کے خلاف یروشلم میں نبرد آزما تھیں۔ اس دوران میں دو مسکین صورت باریش یہودی مدینہ منورہ کے نواح میں آٹھہرے۔ ان کی وضع قطع دیکھ کر کسی کو ان کی زُہد، عبادت اور ریاضت پر شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ دن بھر یہ لوگ اللہ اللہ کرتے رہتے اور رات کو اپنے حجرے میں سرنگ کھودتے رہتے، تاکہ روضۂ اطہر پہنچ کر جسمِ اطہر کو (نعوذ باللہ) نکال کر کہیں لے جائیں۔ ان کی سرنگ روضۂ مبارک کے بالکل قریب جا پہنچی کہ ایک رات نورالدین زنگی کو سردارِ دوجہاںؐ نے خواب میں آکر اس کی اطلاع دی۔ نورالدین زنگی اگلے روز بہت پریشان رہا۔ دوسرا دن بھی پریشانی میں گزرا۔ تیسری رات اسے پھر آنحضرتؐ نے شدت کے ساتھ عمل کرنے کا تقاضا کیا۔ چناں چہ بیدار ہوتے ہی اُس نے مدینہ منورہ کا رُخ کیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے شہر کا جائزہ لیا لیکن ہر چیز کو حسبِ معمول پایا۔ اب کی بار آنحضرتؐنے اس کو خواب میں یہودیوں کی شکلیں بھی ذہن نشین کرا دیں۔ دوسرے دن نورالدین زنگی نے شہر کے باشندوں کی دعوتِ طعام کا انتظام کیا اور حکم دیا کہ کوئی شخص بھی دعوت میں شرکت کے بغیر نہ رہے۔ حسب الحکم لوگ آتے گئے اور کھانا کھاتے چلے گئے، مگر ان میں وہ دو شیطان صفت یہودی انہیں نظر نہ آئے۔ اب یہ پھر بہت پریشان ہوا۔ اور یہودی آتے بھی کیسے؟ کیوں کہ انہیں تو دعوت کی اطلاع بھی نہ تھی۔ ان خناسوں کا طریقۂ کار یہ تھا کہ ایک یہودی کدال لے کر سرنگ میں اُتر جاتا اور دوسرا یہودی پہرہ دیتا اور ساتھ عبادت میں بھی مصروف رہتا۔ نورالدین زندگی نے منتظمینِ دعوت سے استفسار کیا کہ شہر میں کوئی شخص دعوت سے رہ تو نہیں گیا؟ اس پر ایک اہل کار نے کہا کہ ’’آقا! پورا شہر آتو گیا ہے، البتہ دو عابد و زاہد انسان شامل نہیں ہوسکے۔ کیوں کہ وہ ہر وقت عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘ اس پر سلطان نے کہا کہ ’’سبحان اللہ! کیا شان ہے ان کی۔ ہم خود ان کی زیارت کریں گے۔‘‘ چناں چہ ملازمین سے کھانوں کے دستر خوان اُٹھوا کر ان درویشوں کی طرف روانہ ہوئے۔ پہرہ دینے والے یہودی کو دور سے نظر آیا کہ ایک چھوٹا سا قافلہ ان کی کھٹیا کی طرف آ رہا ہے۔ یہ قافلہ ان کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا کہ اس نے جلدی سے اپنے ساتھی کو سرنگ سے اُوپر بلا لیا کہ دیکھو، اتنے لوگ ہماری جانب کیوں آ رہے ہیں۔ اتنے میں سلطان بھی ان کے سر پر جا پہنچا۔ شکلیں وہی تھیں جو خواب میں آنحضرتؐ نے انہیں دکھائی تھیں۔ نتیجتاً دونوں کو گرفتار کیا گیا۔ لوگ سناٹے میں آگئے۔ ان کی کھٹیا کی تلاشی لی گئی، تو بظاہر کچھ دکھائی نہ دیا۔ اتنے میں سلطان کو ایک چبوترے پر جائے نماز نظر آیا۔ اُٹھایا گیا تو اس کے نیچے سرنگ کا دروازہ تھا۔ یہودیوں کے رنگ پہلے ہی فق تھے۔ اب مزید پیلے ہوگئے۔ اب اقرار جرم کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ چناں چہ سلطان نے اپنے ہی ہاتھوں ان خبیثوں کی گردنیں اُڑا دیں جب کہ بعض روایات کے مطابق سلطان نے سیسہ پگھلوا ان شیطانوں کے حلق میں انڈیلنے کا حکم دیا اور یوں یہ لوگ کیفر کردار تک پہنچے۔
آئندہ احتیاط کی خاطر سلطان کے حکم سے روضۂ اطہر کے گرد گہرائی میں سات دھاتوں کی مضبوط دیوار تعمیر کرادی گئی جو آج تک ویسی کی ویسی ہے۔ یہ خطرناک منصوبہ خدا کی مغضوب و مقہور قوم یہودیوں کا بنایا ہوا تھا کہ وہ عالمِ اسلام کی نفرت کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں سے ان کی نفرت اور دشمنی ڈھکی چھپی نہیں۔ خود نصاریٰ بھی جو تاریخ کے بعض مرحلوں میں ان کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں، نفرت کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے، چہ جائیکہ مسلمان ان سے بھلائی کی توقع رکھیں۔
’’فاعتبرو یا اولی الالباب!‘‘
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔