غلّہ۔۔۔ ہماری ثقافتی اور کاروباری جنس

غلّہ ابتدا ہی سے زراعت کی سب سے بڑی پیداوار ی جنس ٹہری ہے ۔جسے کسان نہ صرف کھاتا آیا ہے بلکہ وہ اس کی سوداگر ی بھی کرتا تھا۔گو یا یہ گراں بہا اناج ذریعہ معاش بھی تھااور زرِ مبادلہ بھی ۔ اس لیے تو خیرات ،عشر اور فطرانہ میں غلے کا نصاب مقرر کیا جاتا ہے اور قرآن مجید خیرات دینے کے بدلے میں گندم کے ایک پودے میں سات خوشوں اور ہرخوشہ میں سودانے دینے کا وعدہ کرتا ہے ۔جبکہ حضرت یوسف ؑ مصریوں کو قحط سے نجات دلانے کے لیے سات سال تک گودا موں میں غلوں کے بھٹے جمع کرتے تھے ۔غرض غلّہ ہر علاقے اور ہر زمانے میں اہمیت کا حامل رہاہے ۔سوات کی تاریخ میں آریاؤں کے زمانے سے بھی پہلے مختلف قسم کی فصلیں اُگائی جاتی تھیں ، جن میں گند م،چاول ،جو،مسور اورکپاس شامل تھی ۔ ساتویں صدی عیسوی میں یہاں گنّے کی پیداوار محدود پیمانے پر ہوتی تھی ۔

 میجر ’’اورٹی‘‘ یہاں کی بڑی فصلیں چاول ، گندم ، جو اور باجرہ لکھتے ہیں
میجر ’’اورٹی‘‘ یہاں کی بڑی فصلیں چاول ، گندم ، جو اور باجرہ لکھتے ہیں

میجر ’’اورٹی‘‘ یہاں کی بڑی فصلیں چاول ، گندم ، جو اور باجرہ لکھتے ہیں۔جبکہ مہک ہوہن چاول ، شفتل (چارہ)گندم ،جو ، جوار (مکئی) اور دالیں وغیرہ کاذکر کرتے ہیں ۔’’ ہیوان سانگ‘‘ اوردیگر مؤرخین یہاں کی زرخیزی کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ سب اس بات پہ متفق ہیں کہ یہ زمین کم محنت اور روایتی طرز کی کاشت کاری کے باوجود زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہے ۔ تبھی تویہ زمین ضرورت ہی پورانہیں کرتی تھی بلکہ اضافی غلہ بھی برآمد کیاجاتاتھا۔1901ء کی برآمدی اشیا کی فہرست میں چاول ، مکئی ، گندم اور جو شامل ہے ۔ باچا صاحب کے مطابق 1892ء کو گندم اور مکئی کی قیمت فی من ایک روپیہ تھی جبکہ چاول کی فی من دو تین روپے جو 1958ء میں بالتر تیب پچیس ، تیس اور پینتیس ہوگئی تھی۔ جبکہ1990ء میں سوا سو اور دو تین سو ۔یعنی غلّہ یہاں کی اہم تجارتی جنس رہا ہے ۔ مذکورہ بالا اجناس ایک زمانے سے ہمارے علاقے میں کاشت ہوتی آئی ہیں ۔ جن میں چاول ،گندم اور مکئی وغیرہ جیسی فصلیں نہری زمینوں پر کاشت کی جاتی تھیں ۔ جبکہ جو ، مسور (نسکان) میتھی (مھے ) ، کپاس ، پٹ سن وغیرہ بارانی زمینوں پر ۔ جو بعض ونڈوں میں کھاد کی عدم دستیابی اور آب پاشی نہ ہونے کے باعث سال میں ایک بار کاشت کی جاتی تھی۔ بعض ونڈ مختلف فصلوں کے لیے مختص ہوتے تھے جیسے ڈبونہ میں کپاس ، سُرمنی میں گنا اور شلخوں کس میں مسور کی کاشت ہوتی تھی ۔ اس طرح گاؤں کا جو زارہ ونڈ، جَو کی وجہ تسمیہ ہے۔ بعض میں سرسو ، سویا بین ، سورج مکھی ، چقندر اور گنّا بھی کاشت کیا جانے لگا۔درشخیلہ میں چقندر کا سٹور اور میر باچا میاں کی گانڑی یہاں چقندر اور گنے کی غمازی کرتی ہے۔

 بعض بڑے زمیندار ، اجارہ گر اور سودی حضرات کھتوں اور انبارو ں میں زخیرہ اندوزی کرتے تھے تاکہ نرخ بڑھ جائے اور اسے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے
بعض بڑے زمیندار ، اجارہ گر اور سودی حضرات کھتوں اور انباروں میں زخیرہ اندوزی کرتے تھے تاکہ نرخ بڑھ جائے اور اسے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے

لیکن آج کل یہ چیزیں نایاب ہیں۔ غلّہ ہماری روایت کا آئینہ دار ہے۔ ہماری تمام تر ضروریات کا انحصار اس پر ہے۔ گذشتہ ادوار میں جب جنس کے بدلے جنس کا کاروبار زوروں پر تھا، یہ معاشرے کی بیش بہا دولت تھی ۔ زمیندار ،کسان ، پراچہ اورہر قسم کسب گر اس سے مستفید ہوتا تھا ۔ ہر چند یہ جنس جاگیرداری رویوں کے بل پر طبقاتی نظام کو تقویت دیتی تھی لیکن باہمی روابط کی وجہ سے معاشرہ مربوط تھا ۔دہقان پیداوار کے 1/5حصہ پر خوش تھا تو پراچہ نے بھی کبھی بیسویں پر گلہ نہیں کیا ۔نائی اور مُلا بھی بخوشی اپنا حصّہ لیتا تھا ۔اس طرح عشر وزکواۃ کی مد میں غریبوں کی مدد کی جاتی تھی ۔ لیکن اس نظام میں چند خرابیاں بھی تھیں ۔ مثلاً بعض بڑے زمیندار ، اجارہ گر اور سودی حضرات کھتوں اور انبارو ں میں زخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ تاکہ نرخ بڑھ جائے اور اسے مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے یا پھر سودی لوگ اسے سود پر دے سکے ۔ جس سے غریب کا بیڑہ غرق ہو جاتا تھا اور امیر مزید امیر ہو جاتا تھا۔اس لیے تو کھیت کھلیان سے غلے کے ڈھیریا بعض اوقات کھڑی فصلیں چوری ہوتی تھیں ۔ اگر چہ ان چوروں میں سے بعض اپنی جیب خرچ کے لیے ایسا کرتے تھے، پھر بھی اکثریت اُن میں غریبوں کی تھی ۔ لہٰذا اکثر کسان سال بھر کے لیے اپنا غلّہ جمع کرنے کی کوشش کرتا تھا ۔ کیوں کہ تیار آٹا خرید نا باعث ِ شرم تھا۔ پھر بھی اگر کوئی بندہ خریدنے پر مجبور ہوتا تو وہ آٹے کی بوری رات کے اندھیرے میں گھر لاتا تھا ۔یہ اس لیے کہ ہر زمیندار ، کسا ن ،اجارہ گر یا برخہ خور بیاج گر کہلانے میں عار محسوس کرتا تھا۔لیکن آج کل تو سبھی بیاج کرتے ہیں جو کہ تن آسانی کی علامت ہے ۔

زرعی اداروں نے کسانوں کی معاؤنت شروع کی تو ہمارے گاؤں میں محمد افضل خان لالا ، عبدالحکیم سُر حکیم ، فریدون خان (لنڈی خان ) اورعبدالجبارخان نے بالترتیب زرعی ادارے سے ٹریکٹر حاصل کیے
زرعی اداروں نے کسانوں کی معاؤنت شروع کی تو ہمارے گاؤں میں محمد افضل خان لالا ، عبدالحکیم سُر حکیم ، فریدون خان (لنڈی خان ) اور عبدالجبارخان نے بالترتیب زرعی ادارے سے ٹریکٹر حاصل کیے

اس ضمن میں گاؤں کے ایک پیر مرد حاجی محمد اکبر فرماتے ہیں ’’جس شخص کے پاس زمین ہے اور وہ غلّہ ،سبزی ،دودھ اور فروٹ خریدتا ہے، تو یہ اُس کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔‘‘کاشت کاری ہماری ثقافت میں اتحاد واتفاق کی علامت تھی ۔ اس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے کام آتے تھے ۔ ہر کام میں معاؤنت کرتے اور خاص کروہ زمینداری بھاری کاموں میں اشر کا انتظام کرتے تھے۔ یہی اشر یا شراکت بسااوقات لشکر بنانے میں بھی معاؤنت کرتی تھی ۔ مثلاً ایک ساتھ غوبل ،نھل ،گھاس کاٹنا اور مکئی کے بھٹے کوٹنا وغیرہ۔ 1970ء تک تو پرانے طریقوں پر زمینیں کاشت کی جاتی تھیں لیکن اس کے بعد زرعی ادارے فعال ہوئے اور زراعت میں ایک انقلاب رونما ہوا ۔ زرعی اداروں نے کسانوں کی معاؤنت شروع کی تو ہمارے گاؤں میں محمد افضل خان لالا ، عبدالحکیم سُر حکیم ، فریدون خان (لنڈی خان ) اورعبدالجبارخان نے بالترتیب زرعی ادارے سے ٹریکٹر حاصل کیے ۔اس طرح 1975ء کو جب گاؤں میں کو آپریٹیوبنک کمیٹی بنی تو اس نے کسان کو بیل خریدنے کے لیے ایک ہزارسے دو ہزار تک کا قرضہ دینا شروع کیا۔ ساتھ ہی یہ تنظیم تخم ، کھاد ، کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کی مد میں قرضے اور امداد بھی فراہم کرتی تھی ۔مزید براں زرعی ادارے نے گندم میں مونسی پاک ،انقلاب 85، انقلاب سادہ اور بختاور ، مکئی میں مابولی ،عزم سرحد، وائٹ ، فائیونیر ، تیل کی مکئی اور ہائی بریڈ جبکہ چاول کی مختلف قسمیں متعارف کیں۔جس کی وجہ سے زراعت نے کافی ترقی کی ۔لیکن ساتھ ساتھ سرمایہ دار طبقہ بھی سامنے آنا شروع ہوا۔جس سے زراعت کا پہیہ جام ہونے لگا۔کیوں کہ پیسے کی قدر بڑھ گئی تھی اورلوگ اس کے حصول کے لیے باہر کے ممالک جانا شروع ہوئے تھے ۔ وکیل حکیم زئی کہتے ہیں ۔’’ پہلے لوگ پورا سال غلے کے عوض مزدوری کرتے تھے لیکن آج کل مکئی اور گندم پر گزر بسر مشکل ہے اس لیے میخبہ اور ذاتی مزدور رکھنا محال ہے۔‘‘
لہٰذا سیکڑوں کسان،دہقان اور دیگر کسب گر جن کی آمدنی زراعت سے پوری ہوتی تھی، نے یہاں سے ہجرت کرکے مختلف شہروں میں سکونت اختیار کی ہے ۔