بھارتی وزیراعظم نریند مودی ایک بار پھر سری نگر وارد ہوئے، جہاں ان کے اعزار میں ایک استقبالیہ تقریب برپا ہوئی۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے مودی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے رمضان میں جنگ بندی کا اعلان کیا، اب کشمیری مائیں چین سے سوسکیں گی کہ ان کے بچوں کی زندگی محفوظ ہے۔ دبے اور محتاط لفظوں میں انہوں نے مودی سے ’’درخواست‘‘ کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کا عمل بحال کریں، کیوں کہ آپ بڑا ملک ہیں اور آپ کا دل بھی وسیع ہے۔
مودی نے محبوبہ کی تقریر کافی بے چینی سے سنی۔ ان کے سپاٹ چہرے سے ظاہر ہوتاتھا کہ وہ زیادہ خوش نہیں۔ بعض اوقات انہیں پہلو بدلتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ اپنے خطاب میں مودی نے ’’بھٹکے ہوئے نوجوانوں‘‘ کو ملکی ترقی اور خوشحالی کے قومی سفر کا حصہ بننے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے سیاسی عمل کی بحالی یا پاکستان کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات کا کوئی عندیا نہ دیا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ مودی ابھی تک اسی روایتی سوچ کے اسیر ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی شراکت کے بنا دہلی اور سری نگر کے مابین طاقت اور ترغیب کا نسخہ استعمال کرکے حل کرلیا جائے گا۔
مودی کے دورۂ سری نگر سے چند دن قبل بھارتی حکومت نے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے مطالبے پر فورسز کو وادئی کشمیر میں فوجی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کی جسے رمضان سیزفائر کا نام دیا گیا۔ یاد رہے کہ 2000ء میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے بھی یک طرفہ طور پر رمضان میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، اگرچہ یہ جنگ بندی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی تھی۔ اس پس منظر میں مبصرین کو توقع تھی کہ وزیراعظم نئی شروعات کا اعلان کرسکتے ہیں لیکن مودی کے خطاب نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
رواں برس کے آغاز سے ہی کشمیر میں تشدد بری طرح بھڑک اٹھا اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ گذشتہ ساڑھے چار ماہ کے دوران میں 115 شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ اپریل ہلاکتوں کے لحاظ سے بدترین مہینے تھا۔ محض چار ہفتوں میں 50 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ نوجوان آہستہ آہستہ عسکری تنظیموں کے نیٹ ورک میں شامل ہورہے ہیں۔
ہر روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حال ہی میں کشمیر یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیع بھٹ کی دل دہلا دینے والی کہانی سننے کو ملی۔ جو یہ بتاتی ہے کہ تنازعہ کشمیر نے کس طرح نوجوانوں اور عام شہریوں کے دل ودماغ کو مفلوج کر دیا ہے۔ بتاتے ہیں کہ 4 اپریل کو رفیع نے کلاس ختم کرتے ہوئے طالب علموں کو بتایا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے شہر سے باہر جا رہے ہیں۔ دو دن بعد ان کا گولیوں سے چھلنی بدن ایک تابوت میں گھر کی دہلیز پر پڑا تھا۔ دکھ اور کرب سے پوری وادی کراہ اٹھی۔ ان کے ایک ذہین اور قابل فرزند نے ایک پُرخطر راستے کا انتخاب کیا اور آج وہ اس کے آخری دیدار کو ہجوم کیے تھے۔
جولائی 2016ء کو مظفر برہان وانی کی شہادت نے کشمیر ی سماج اور سیاست پر ناقابل یقین اثرات مرتب کیے۔ ایک طرح کی ثقافتی تبدیلی رونما ہوئی۔ مزاحمتی کلچر گہرا ہوا اور شہری، سرکار کی زیادتیوں کے خلاف زیادہ دلیری کے ساتھ کھڑے ہونے لگے۔ مثال کے طور پر برہان وانی کے جانشین صدام پڈر کو قتل کیا گیا، تواس کی والدہ، ایک پُرجوش ہجوم کے سامنے ایک چھت پر کھڑی ہوئیں، بندوق اٹھائی اور ہوا میں کئی فائر کیے۔ شہید کی ماں نے دنیا کو باور کرایا کہ وہ اپنے فرزند کی جدوجہد کے ساتھ کھڑی ہے۔ آج اپنے بیٹے کی ہیرو جیسی موت کا جشن منارہی ہے۔
کشمیر یونیورسٹی سے حالیہ برسوں میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کرنے والے جنید صحرائی ایک دن اچانک گھر سے غائب ہوئے اور عسکریت پسندوں سے جاملے۔ جنید کشمیر کے ممتاز لیڈر محمد اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں، جنہوں نے سیّد علی گیلانی کے جانشین کے طور پر تحریک حریت کشمیر نامی سیاسی جماعت کی کمان سنبھالی ہے۔ تمام تر دباؤ اور اپیلوں کے باوجود صحرائی نے اپنے صاحبزادے سے گھر لوٹ آنے کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔
نعیم فضلی ایک گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ہیں۔ انہوں نے سنا کہ ان کے بیٹے عیسیٰ فضلی ایک تصادم میں ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے خود فیس بک پوسٹ کے ذریعے یہ خبر جاری کی۔ بعد میں اپنے فرزند کی جنازہ کی امامت کی اور اپنے لختِ جگر کو پیوند خاک کیا۔ اب شہری عسکریت پسندوں کو فوجی محاصروں سے نکالنے کے لیے جوق درجوق جمع ہوجاتے ہیں۔ فوج پر پتھر پرستے ہیں۔ بعض اوقات پتھر بازی کے دوران میں کئی لوگ مارے بھی جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود لوگ عسکریت پسندوں کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فوجی قیادت نے کئی مرتبہ سخت تنبیہ بھی جاری کی، لیکن لوگوں کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آتی۔ انڈین ایکسپریس کے مزمل جلیل کے ساتھ انٹرویو میں بھارتی آرمی چیف جنرل بپن روات نے کہا: ’’لوگ سزا کے خوف کے بغیر فورسز پر حملہ کرکے آپریشنوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
یہ چند واقعات مسئلہ کی شدت کے اظہار کے لیے بیان کیے گئے۔ ورنہ ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جہاں خاندان کے لوگوں اور سماج نے پُرتشدد مزاحمت کی نہ صرف حمایت کی بلکہ انہیں رومانوی انداز میں پیش کیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بے لچک پالیسیوں نے نہ صرف حالات کو ابتر کیا بلکہ کشمیری سیاست میں پاکستان کو ایک اہم کھلاڑی بنا دیا۔ زیادہ تر لوگ جنہوں نے پاکستان کی نظریاتی سطح پر مخالفت کی تھی، اب اعتراف کرتے ہیں کہ نئی دہلی کی حکمت عملی نے قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کی اثابت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ سرینگر کے ایک سینئر صحافی بشیر منظر جو اکثر پاکستان سے شاکی رہتے ہیں، نے فیس بک پر موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’چاہے ہم اسے پسند کریں یا نا، مودی حکومت کی کشمیری پالیسی نے پاکستان کو 1947ء سے کہیں زیادہ کشمیر کے حالات میں متعلقہ بنا دیا۔ آج کے کشمیر میں پاکستان کا ایک مضبوط حلقہ ہے اور یہ صرف علیحدگی پسندوں پر مشتمل نہیں رہا۔‘‘
کشمیر کے حالات گذشتہ دو برسوں کے دوران میں بہت خراب ہوئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتری میں اضافہ ہورہاہے۔ نوجوان نسل میں پایا جانے والا غصہ بھارتی فورسز کو مزید اشتعال دلاتاہے اور وہ زیادہ بے خوفی کے ساتھ ردعمل کرتی ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ کشمیریوں کی ایک پوری نسل ایک بار پھر کٹنے اور مرنے پر آمادہ ہوچکی ہے۔ امریکہ میں ہونے والے نائن الیون کے افسوسناک حملوں کے بعد ریاستی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی برادری نے جائز تسلیم کرلیا ہے۔ کشمیر میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال عالمی بے حسی کی ایک بدترین مثال ہے۔غالباً کوئی ایک اسٹیک ہولڈر بھی ایسا نہیں جو یہ نہ تسلیم کرتاہو کہ کشمیر میں حالات کی بہتری کی کنجی نئی دہلی کے پاس ہے۔ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں قائم شہریوں کے ایک گروپ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات شروع کرے۔ حال ہی میں، ٹویٹر صارفین کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل پولیس جموں و کشمیر ایس پی وید نے براہِ راست سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’مسئلہ کاحل بندوق نہیں۔ ہر پارٹی، جس میں ہمارا پڑوسی بھی شامل ہے، کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔‘‘
رمضان کے دوران میں جنگ بندی کے اعلان پر مزاحمتی گروہوں نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی، لیکن یہ جنگ بندی حالات کے سدھار اور مذاکرات کی میز کی طرف لوٹ جانے کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں، نہ ایک آج کی تاریخ میں جوہری ہتھیار رکھنے والے پڑوسیوں کے مابین جنگ ہی ہوسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مذاکرات کے عمل میں تنازعہ میں شریک مزاحمت کار گروہوں کی شمولیت کے بغیر مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلا جاسکتا۔ دنیا میں جنگوں کے عین عروج پر بھی فریقین کے مابین مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ لہٰذا، آگے بڑھنے کا واحد راستہ بات چیت کی بحالی ہے۔ دنیا کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ کشمیری مزاحمتی لیڈرشپ بات چیت یا امن کے قیام کے حق میں نہیں۔ سیّد علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور جناب یاسین ملک بہت ہی جہاں دیدہ لیڈر ہیں۔ وہ سیاست کے ذریعے موجودہ بحرانی کیفیت سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کی ہمت افزائی کی جانی چاہیے نہ کہ ان کے راستے میں روڑے اٹکائیں جائیں۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔