اداروں اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین جاری دھینگامشتی میں عوام کو کچلا جا رہا ہے۔ ’’تبدیلی گروپ‘‘ کی جنگ اداروں کے ساتھ ہے اور درمیان میں کے پی کے کے عوام صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
صحت کے ادارے عوامی صحت کے لیے مضر:۔ ہسپتالوں میں سوئی (سرنج) تک نایاب ہوجاتی ہے، تو مقامی ایم پی ایز ہسپتالوں میں دبنگ انٹریاں مارتے ہیں۔ احتجاج کے طور پر پھر ڈاکٹر حضرات ناک پر کالی عینک چڑھا، سینے پر سٹیٹسکوپ لٹکا، سڑکوں پر نکل کر ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ادھر بستر پر پڑا مریض ایڑیاں رگڑتا ہے، مگر ایوانوں اور ہسپتالوں میں ’’خواجہ آصف‘‘ کا بیان کردہ ماحول ہی ہوتا ہے۔
آپ اِدھر ڈرگ ایکٹ نافذ کرتے ہیں اور اُدھر تمام میڈیکل سٹوروں کے شٹر ڈاؤن ہوجاتے ہیں۔ پھر کوئی دوا ملتی ہے اور نہ مریضوں کی بددعا ہی کوئی کام کرتی ہے، جو آپ اور ان ڈرگسٹ اور کیمسٹ والوں کے لیے ان کے دل سے نکلتی ہے۔
تعلیمی پلان ڈس رہا ہے:۔ جناب والا! آپ نے اپنی اننگز کے آغاز میں تعلیمی سنچری کے بغیر پچ نہ چھوڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کے لیے پرانے مڈل پاس کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر رخصت کیا، تو آپ کو جان کے لالے پڑگئے،جو کسی وقت ٹاٹ پہ بیٹھے آپ کے بچوں کو پڑھاتے تھے، وہ اب آپ کو سڑکوں پر سبق سکھانے نکلنے لگتے ہیں۔ آپ نئی بھرتیوں میں میرٹ کا پیمانہ جانچ نہیں سکتے۔ آپ اسمبلی سے تعلیمی بل کی پریس ریلیز تک جاری نہیں کرسکتے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ پھر سڑکوں پر آپ کو لکچر دیتے پھرتے ہیں اور طلبہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر آپ حضرات کی تقریریں سننے میں قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں ۔ کیوں کہ کتاب پڑھنے سے تو وہ گئے۔
ترقیاتی منصوبے ذلیل کر رہے ہیں:۔ حضرت سلامت! آپ پنجاب کو شکست دینے کے لیے بی آرٹی جیسے منصوبے شروع فرما رہے ہیں۔ سیاحت کو پروان چڑھانے کے لیے ’’بیوٹی فکیشن‘‘ جیسے منصوبوں کی مثال قائم کر رہے ہیں، مگر سڑکوں کے ناپ تول اور بجٹ میں الجھ جاتے ہیں۔ اُدھر سرزنش افسران کی ہوتی ہے اور ایسے میں سی ای اوز سمیت معمولی افسران بھی احتجاجاً دامن جھاڑ، استعفا دے کر نکل جاتے ہیں۔ منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پھر راستے بند، ٹریفک جام۔ حضرت، آپ کا ایک منصوبہ پورے شہر کو جام کر دیتا ہے۔ اور اس طرح پھر ذلیل و خوار عوام ہوتے ہیں۔
تو حضرت اب عرض یہ ہے کہ اس احتجاج کی روایت تو آپ ہی نے رکھی تھی، اب جو روایات آپ کی شروع کردہ ہیں، وہی آپ کے گلے کی ہڈی بن رہی ہیں۔ اس کھینچا تانی میں عوام ہیں کہ رُل رہے ہیں۔
جنابِ من! ذرا آئین کھولیں، ان شقوں پر غور کریں جو اس احتجاجی سلسلوں کو پلین ٹریک مہیا کر رہے ہیں اور فیصلہ کریں کہ تعلیم، صحت، ترقی اور فیصلہ سازی میں آپ کس حد تک اسمبلی اعتماد رکھتے ہیں، تاکہ عوام سکھ کا سانس لیں۔ آخر پنجاب کے ساتھ دشمنی میں آپ عوام ہی کو کیوں رگید رہے ہیں؟ ڈرئیے، اس دن سے جب خیبر پختونخوا کے عوام بیلٹ پیپر کے ذریعے آپ سے اپنا بدلہ لینے پر تل جائیں۔
حضرت، ڈرئیے اس دن سے!
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔