آسمان کا آخری تحفہ

میری ملاقات اس سے سرِ راہ ہوئی۔ پرانی جان پہچان تھی۔ چہرے پہ بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے خیریت دریافت کرنے کے حوالے سے اُس کے اکلوتے بیٹے سے متعلق پوچھا، جو اس نے نازو نعم سے پالا تھا، تو اس کے چہرے پر اُداسی چھا گئی اور کہا کہ شادی کے بعد وہ علیحدہ ہوکر رہ رہا ہے اور یہ کہ اب وہ خود بیٹی کے گھر زندگی کے دن پوری کررہی ہے۔
یہ ہمارے سماج کا ایک دردناک المیہ ہے کہ والدین، خصوصاً ماں نے اولاد کو پالا پوسا جوان کیا، تعلیم اور تربیت دلائی لیکن انہوں نے والدین کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں کہ والدین سات بیٹوں کی دل و جان سے دیکھ بھال اور پرورش کرتے ہیں لیکن سات بیٹے دو (یعنی ماں باپ) یا پھر ایک (ماں) کو نہیں پال سکتے۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے کہ اگر انسان تمام زندگی ماں کا احترام اور خدمت کرتا رہے، تو اس کی خدمات، رحم اور شفقت کا کبھی بدلہ نہیں دے سکتا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اللہ کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں، تو اُنہیں اُف تک نہ کہو اور نہ اُنہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ ادب سے جھک کر نرمی اور احترام سے بات کرو۔‘‘آنحضرتؐ نے ماں کے احترام پر بہت زور دیا ہے۔ ایک صحابی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدین کی خدمت بارے پوچھا، تو آپؐ نے تین دفعہ ماں کی خدمت پر زور دیا اور تیسری دفعہ والد کے احترام اور خدمت کا حکم دیا۔

ہر سال آٹھ مئی کو ساری دنیا میں ’’ورلڈ مدرز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ (Photo: Huffington Post)

ہر سال آٹھ مئی کو ساری دنیا میں ’’ورلڈ مدرز ڈے‘‘ یعنی ’’عالمی یومِ مادراں‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس روز لوگ اپنی ماؤں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہیں تحفے تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور بعض لوگ اپنی ماؤں کو سیر و تفریح کے لیے باغوں اور پارکوں میں لے جاتے ہیں اور فوت شدہ ماؤں کو اپنی دعاؤں میں یاد کرتے ہیں۔ ماں کا احترام اور اس کی خدمت انسانی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب ماں کے احترام اور تقدس کے قائل ہیں۔ سردارِ دو جہاںؐکا قولِ مبارک ہے کہ ’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ یونانی فلاسفر ارسطو کا کہنا ہے کہ ’’انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی آغوش ہے۔‘‘ مشہور انگریز ادیب شیکسپیئر کہتا ہے کہ ’’دنیا کی تمام محبتیں، پیار سے ماں کہتے ہی مل جاتی ہیں۔‘‘ نادر شاہ کہتا ہے کہ ’’مجھے ماں اور پھول میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔‘‘ ایک اور مفکر کا قول ہے کہ ’’آسمان کا آخری اور بہترین تحفہ ماں ہے۔‘‘ ماں سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جو قدرت نے انسانوں کے علاوہ جانوروں کی فطرت میں بھی ڈالا ہے۔ ماں ایک ایسی چھاؤں ہے جس کی آغوش میں آرام، خوشی اور سکون ہے جب کہ ماں کا لفظ سنتے ہی دل میں محبت کے جذبات اُمڈ آتے ہیں۔ الغرض، ماں کے تقدس اور عظمت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ ایک روایت کے مطابق بروزِ قیامت ہر انسان کو خدا کے حضور ماں کی معرفت بلایا جائے گا۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔