احتساب ایسا گوند ہے جو کوشش کو نتیجے سے جوڑتا ہے، بوب پروٹوکٹر۔
اگر اس قول کو بغور دیکھا جائے، تو ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بالکل واضح نظر آجائے گا کہ کس طرح انہوں نے اپنے ہاں ایک مضبوط احتساب کا نظام رائج کیا ہے، وہاں پر احتساب کو ریاست کا بنیادی جز تسلیم کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں احتساب کی تاریخ کچھ اچھی نہیں۔ یہاں پر سیاستدان، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کوئی بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار نہیں۔
اگر ہم احتساب کو کئی قسموں میں تقسیم کریں، تو سب سے پہلے سیاسی احتساب سامنے آتا ہے۔ سیاسی احتساب اسی کو کہتے ہیں کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں اور پارلیمان انتخابات کی صورت میں عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش ہوں۔ اس میں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ساری بڑی جماعتیں، چند سیاسی خاندانوں کی غلام ہیں۔ یہاں پر کسی اہل آدمی کو قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا انتظام باوجود تمام کوششوں کے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ اس کیلئے جو متعلقہ ادارہ ہے، وہ ’’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘‘ ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی نہیں بناتا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے نام پر جو دھول عوام کی نظروں میں جھونکی جاتی ہے، اس کا خاتمہ ہو۔
احتساب کی جو دوسری اہم قسم ہے، وہ ہے ’’معاشی احتساب۔‘‘ سیاسی احتساب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اسی قسم کی ہے۔ معاشی احتساب اسی کو کہتے ہیں کہ حکومتی وزرا یا سرکاری افسران جتنے بھی مالی معاملات سرانجام دیں، ان کی کسی مخصوص خودمختار ادارے کے ذریعے نگرانی کی جائے۔ نیز پرائیوٹ کاروبار کرنے والوں کو بھی ٹیکس کے نظام کے نیچے لایا جائے، لیکن ہمارے ہاں اسے معاملے میں بھی ابھی تک خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ یہاں پر جتنے بھی مالی امور سے متعلق ادارے ہیں، ان کو ہمیشہ سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور ان اداروں کے پاس سیاست دانوں کے علاوہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی نہیں ہوتا۔
اس کے بعد احتساب کی جو تیسری قسم ہے وہ ’’انتظامی احتساب‘‘ ہے۔ انتظامی احتساب کا مطلب سرکاری افسران کو ان کے فرائض کے مطلق جواب دہ بنانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی محکمہ اپنے افسران کے احتساب کے مطلق کام نہیں کرتا اور اس وجہ سے زیادہ تر سرکاری افسران کھلے سانڈ کی طرح عوام کو روندتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں پر جو بندہ جتنا بڑا عہدیدار ہوتا ہے، وہ قانون کو اتنا ہی حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ جتنے بھی محکماتی احتساب کے ادارے ہیں، سب کے سب خاموش تماشائی کی صورت یہ تمام خلاف ورزیاں دیکھتے ہیں۔
احتساب کی جو سب سے اہم اور آخری قسم ہے وہ ’’معاشرتی احتساب‘‘ ہے۔ معاشرتی احتساب کا مطلب اپنی روزمرہ زندگی اور معاملات کو ٹھیک کرنا ہے۔ اس کے لیے کسی محکمے کی ضروت نہیں ہوتی بلکہ اسے اپنے آپ اور اپنے گھر کی چاردیواری سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی کام کے لیے رشوت یا سفارش کے بجائے اپنی باری کا انتظار کریں، تو سرکاری افسران خودبخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر ہم قانون کی پاس داری کو یقینی بنائیں، کسی کے نقصان کی بجائے اس کی تھوڑی سے اچھائی کے لیے کام کریں، تو کیا یہ معاشرہ جنت نظیر نہیں بن جائے گا؟
قارئین، لیکن اس بحث کے دوران میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کس طرح ہو، کن معاملات کا ہو اور کون اس کا ذمہ دار ہو؟ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ مؤثر قانون سازی کرکے ایسے احتساب کا نظام بنایا جائے کہ وزیراعظم سے لے کر چیف جسٹس تک اور عسکری سربراہان سے لے کر ایک عام آدمی تک سب کو یکساں قانون کی نظر میں پرکھا جائے۔ ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مخصوص احتساب سے پرہیز کرکے اچھے جرم اور برے جرم کی تمیز ختم کی جائے۔ کیوں کہ حضرت محمدؐکے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ تم سے پہلے اقوام اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے چھوٹے (کمزور) لوگ گناہ کرتے، تو ان کو سزا دی جاتی اور جب بڑے (طاقتور) لوگ گناہ کرتے، تو ان کو چھوڑ دیا جاتا۔
بس اللہ ہمیں تمام احادیث مبارکہ پر عمل کی توفیق دے اور ہمیں تباہی سے بچائے ، آمین۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔