تعلیم ایک سماجی ضرورت ہے۔ انسان کی زندگی کا دار و مدار جہاں دیگر ضروریاتِ زندگی پر ہے، وہاں علم کی روشنی بھی اس کے لیے نہایت ضروری ہے جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔
تعلیم و تعلم کے عمل کو حصولِ علم کہتے ہیں جس کے معنی ہیں جاننا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ابد سے علم کی جستجو میں لگا ہوا ہے اور اسی علم ہی کی بدولت انسان بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا رہا ہے۔
اسلام حصولِ علم کا سب سے بڑا علم بردار اور نقیب ہے اور حصولِ علم کو تمام انسانوں کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟‘‘
ایک دوسری آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’بے شک علما ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘
آنحضرتؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’حصول علم ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث مبارکہ میں سرورِ کائناتؐ کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’علم حاصل کرو، چاہے اس کے لیے تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے۔‘‘
قبل از مسیح، یونان کے مفکرین نے بھی تعلیم کو انسان کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ یوروپی اور مسلمان مفکرین نے بھی تعلیم کو فرد کے لیے ضروری خیال کیا ہے اور اسے معاشرے کی اصلاح اور ترقی کا زینہ قرار دیا ہے۔ ایک سویس ماہر نفسیات جین پچیٹ (انتقال 1980ء) کا کہنا ہے کہ تعلیم ہی معاشرے کو تباہی سے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں معاشرے کی خرابیوں کے خاتمے میں تعلیم کاکردار مسلم رہا ہے۔
وطن عزیز میں تعلیم کے لیے جو کچھ بجٹ میں مختص کیا جاتا ہے، وہ یونیسکو کی مقررہ حد سے بھی کم ہے یعنی ہمارے قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کی دو فیصد سے بھی کم رقم رکھی جاتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک تعلیم کی اہمیت کے پیشِ نظر اپنے معاشروں اور معیشتوں کو بہتر بنانے کے لیے یونیسکو کی جانب سے مقررہ شرح کے مطابق اخراجات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کیوبا اپنی بجٹ میں تعلیم پر اٹھارہ فیصد خرچ کر رہا ہے۔ یہی حال دنیا کے دیگر کئی ممالک کا بھی ہے۔ کیوں کہ انہیں خصوصاً موجودہ دور میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری جاگیردارانہ اور فرسودہ روایات کے حامل معاشرے میں اس طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں شرح خواندگی کا ہدف ستّر (70) سال ہوئے حاصل نہ ہوسکا جو ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
کرپشن اور کمزور جمہوریت کی خطرناک سطح ہمارے ہاں تعلیم کے شعبے کی خراب صورتحال کا نتیجہ ہے جس پر نظرِثانی کی ضرورت ہے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔