کسی بھی زبان کے لئے چھوٹی یا بڑی کا اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔ کسی بھی زبان کے بولنے والوں کی تعداد زیادہ یا کم ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ معدومی کے خطرے سے دوچار ان زبانوں کے لئے کوئی یک لفظی اصطلاح موجود نہیں جن کے لئے انگریزی زبان میں endangered کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لہٰذا لفظ ’’چھوٹی‘‘ میں نے ان زبانوں کے لئے استعمال کیا ہے جن کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور پاکستان میں ان زبانوں کے بولنے والے پسماندہ، کمزور اور کم تعداد میں ہیں۔
کئی لائق فاضل احباب ایسی زبانوں کے لئے ’’لہجے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لئے وہ اپنی دلائل دیتے ہیں جن میں ان زبانوں میں ’’ادب‘‘ کا نہ ہونا یا ان میں لکھنے کا رواج نہ ہونا سرفہرست ہوتی ہیں۔ یہ دونوں دلائل ناقص ہیں۔ ادب کے دائرے صرف لکھے ہوئے ادب تک محدود نہیں۔ ادب، زبانی روایات پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ اسی طرح ان زبانوں میں تحریر کی کوئی رسم نہ ہونا یقیناً ان زبانوں کا قصور نہیں۔ اسی طرح کی ایک عامیانہ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ساری زبانیں کسی ایک زبان کے ذیلی لہجے ہیں۔ اس دلیل کو اگر صحیح مان لیا جائے، تو دنیا کی ساری زبانیں لہجے ہی ہوگئیں۔ کیوں کہ یہ ساری زبانیں کسی ایک زبان کی ہی شاخیں ہیں۔ ماہرین لسانیات اس سلسلے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی ایک زبان کے ایک سے زیادہ لہجے ہوسکتے ہیں۔ یہ لہجے تب کسی ایک زبان کے ہی ہونگے جب ان مختلف لہجوں کے بولنے والے جب آپس میں گفتگو کرتے وقت ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے کسی دوسری زبان کا سہارا نہ لیں۔ اگر ایک لاہوری اور پوٹھوہاری جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے کسی اور زبان کا سہارا نہیں لیتے، تو وہ ایک ہی زبان پنجابی کے مختلف لہجے بولتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایک پشاوری پختون کابل کے پختون کی زبان کو سمجھتا ہے، تو دونوں کے لہجے ایک ہی زبان پشتو کے ہونگے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان زبانوں میں ’’اعلیٰ ادب‘‘ پیدا نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ زبانیں لہجے قرار دی جائیں۔ اسی جائزے سے تو اردو بھی شائد زبان ہونے کا درجہ کھو دے۔ اردو ابھی تک وہ اکادمی (academic) حیثیت حاصل نہیں کرسکی جو انگریزی، ہسپانوی، ڈوئچولے (جرمن)، فرانسیسی، فارسی، عربی یا روسی زبان نے حاصل کی ہے۔ ماضی میں اردو میں اعلیٰ اور فکری ادب پیدا ہوتا تھا لیکن جوں ہی ریاستی سطح پر اردو کو بھی دوسرے کئی قومی امور اور بیانیے کی طرح ’’اسلامیا‘‘ گیا تو یہ آہستہ آہستہ محدود ہوتی گئی۔ جدید فکری زوایے کو اب اردو میں بیان کرنا کافی مشکل لگتا ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ چند ایک لکھاری اب اردو میں جدید فکر کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اردو میں بے شک اچھا افسانہ اور شاعری لکھی گئی ہے مگر اعلیٰ نثر اب بھی ناپید ہے۔ ماضی میں البتہ سبط حسن اور علی عباس جلالپوری جیسے جید حکما نے اچھی کوشش کی ہے۔
زبان، ابلاغ کا ذریعہ بھی ہے۔ انسانی تاریخ کو محفوظ اور اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کا وسیلہ بھی ہے۔ اسی طرح یہ انسانی ثقافت اور علم کو محفوظ بھی کرتی ہے اور اگلی نسلوں تک بھی پہنچاتی ہے۔ یہ سیاسی و معاشی طاقت کو دوسروں پر لاگو کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔
زبان کا عام حصہ تو بولنا ہے۔ اس کا اہم ترین حصّہ اس کی تحریر ہے۔ والٹیئر نے کہا تھا، زبانی الفاظ اُڑ جاتے ہیں جبکہ تحریر شدہ الفاظ امر ہوجاتے ہیں۔ اگر ماقبل مسیح کے یونانی دانشوروں کے افکار کو تحریر نہ کیا جاتا، تو انسانی علم کی آج یہ حالت نہیں ہوتی۔ اگر ہومر کی الییڈ اور اڈوسیی کو تحریر نہ کیا جاتا، تو بعد کا انسان ان خزانوں سے محروم ہوجاتا یا پھر غار کا قدیم انسان غاروں میں نقشے نہیں بناتا یا قدیم انسان چٹانوں پر، مٹی اور ہڈی کے پلیٹوں پر نقش نگاری نہیں کرتا، تو آج ہم اپنی تاریخ سے ہی محروم ہوجاتے۔
پاکستان میں کل ستّر کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یونیسکو کے مطابق ان زبانوں میں ستائس معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان زبانوں کو لکھا جاتا ہے نہ تعلیم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان قومیتوں کی نئی نسلیں ان زبانوں کو اصل صورت میں نہیں بول سکتیں۔ یہ نسلیں اب اپنی ان زبانوں کی روایات بھول چکی ہیں، مگر یہ صورتحال ان زبانوں کو کمتر نہیں بناتی۔ یہ حالت ریاستی سطح پر لسانی اور ثقافتی تنوع سے روا رکھے گئے رویے سے بنی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان زبانوں میں علم و ادب مفقود ہے۔ ان زبانوں کی اپنی شاعری ہے، افسانہ ہے، کہانی ہے، تاریخ ہے اور روایات ہیں۔ بسا اوقات ان زبانوں کی قدیم و جدید شاعری ملک میں ’’بڑی زبان‘‘ کی موجود قدیم و جدید شاعری سے استعارات، تشبیہات، فکر اور امیجری کے حوالے سے خوب مقابلہ کرسکتی ہے بلکہ بہت حد تک زیادہ پُرامن اور غیر متعصب ہے۔ یہ تب ہی پتا چلتا ہے جب کوئی ان زبانوں کے ادب کو محفوظ کرنے نکلے۔
سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود ان مٹتی زبانوں کے علم و ادب کو کچھ افراد اور نجی ادارے کتابوں کی صورت میں محفوظ کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے ان زبانوں کو لکھنے کے لئے نظام وضع کیا (ان سب زبانوں کا رسم الخط اردو (عربی) ہے۔ ان ہی سرپھروں نے ان زبانوں میں اب کتابیں لکھی ہیں اور ہر سال ان زبانوں میں کئی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔
ہمارے ملک میں علم و ادب اور تحقیق کے حوالے سے اکثر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ سوال ایک ایسی قوم میں بالکل فطری ہے جس کا اکیسویں صدی میں بھی سب سے اہم مسئلہ روزی روٹی ہی ہو اور جس کو زندگی کے بنیادی وسائل بھی درکار نہ ہوں۔ اسی طرح ان زبانوں کے بولنے والوں کا فوری مسئلہ ان کی زبانوں کا معدوم ہونا شائد نہ ہو اور نہ ہی اس ضرورت کو سب لوگ ایک طرح سے محسوس کریں۔
کسی بھی تحقیق یا دریافت کا فوری فائدہ محسوس نہیں ہوتا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آگے جاکر اس تحقیق اور دریافت نے بی نوع انسان کو کلی طور پر مستفید کیا ہے۔ امواج ثقل کے موجود ہونے کی دریافت میں ہمیں شائد وہ فائدہ اب نظر نہیں آتا جس سے شائد ایک صدی بعد کا انسان براہ راست مستفید ہو۔ اسی طرح کسی ادبی کام کی اہمیت کا اندازہ اس کی تخلیق کے وقت اکثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے سارے تخلیق کار، دانشور اور فلسفی اپنی زندگیوں میں تنگ دست ہی نہیں بلکہ معتوب بھی رہے ہیں لیکن بعد میں پوری دنیا ان کی معترف ہوئی ہے۔
جو لوگ اور ادارے ان ’’چھوٹی‘‘ زبانوں میں کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ اصل میں اپنی آئندہ نسلوں اور دیگر انسانوں کے لئے علم کی بنیاد رکھ کر اس کو جمع کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اور ادارے انسانی حکمت کے بکھرے اور مٹتے ہوئے اجزا کو محفوظ کرکے تاریخی کام کر رہے ہیں۔ چھوٹی زبانوں کے یہ لکھاری، محقق، شاعر اور ادیب اسی توقیر کے حقدار ہیں جس سے اکثر پاکستان میں اردو اور انگریزی زبانوں کے ادبا اور لکھاریوں کو نوازا جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ لوگ ان سے بھی دو قدم آگے کا کام کر رہے ہیں کہ ان کے پاس پہلے سے کوئی ادب تحریری صورت میں موجود نہیں ہے۔ یہ لوگ حکومتوں اور نجی اداروں کی طرف سے اعلیٰ اعزازات کے مستحق ہیں۔ ایسے میں ان افراد اور اداروں کو ریاست کماحقہ حصہ دے۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔