اسلامی ریاست میں آباد ہر غریب، مظلوم اور مفلوک الحال سمیت ہر شہری کی حفاظت اور کفالت ریاست کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اسی طرح ہر شہری کو انصاف فراہم کرنا حکومتِ وقت کی اسلامی، قانونی اور آئینی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ اسلامی ریاست میں انسانی جان کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی کو مرکزیت حاصل ہے…… مگر افسوس کہ پاکستان میں سارے قانونی تقاضے غریبوں کے لیے ہوتے ہیں اور حکومت یہ قانونی تقاضے بہت تیزی سے پورے بھی کرتی ہے…… لیکن اشرافیہ، طاقت وروں، سرداروں، پیر فقیروں، زرداروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد سمیت ہر قسم کی مافیا کے لیے کوئی ایسا قانون نہیں، جو اُن کے خلاف حرکت میں آئے۔ نہ ریاست یا حکومت ایسی کوئی قانونی ذمے داری قبول کرنے کو تیار ہی ہے۔
مذکورہ جرائم میں سرِفہرست منشیات کا کاروبار ہے، جو نوجوان نسل اور ملک کی تباہی اور بربادی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ نشہ ایک ایسی لعنت ہے، جو انسان کو بے ہوش اور دین و دنیا سے بے خبر کر دیتی ہے، یہاں تک کہ انسان رفتہ رفتہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
منشیات ایک شیطانی عمل ہے اور اس کا استعمال جسمانی اعتبار سے مضر، ذاتی اور ملکی معیشت کے لیے تباہ کن اور سماجی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے سمِ قاتل ہے۔ آج کی نوجوان نسل متاعِ حیات سے بے پروا ہوکر تیزی کے ساتھ نشہ جیسے زہرِ ہلاہل کو قند سمجھ رہی ہے، جو ہلاکت اور بربادی کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں معاشرے میں منشیات کے استعمال اور فروغ کی بنیادی وجہ مغرب کی اندھی تقلید ہے۔ مغرب پرستی نے ہمارے سماج میں دوسری لعنتوں کے ساتھ منشیات کی لعنت کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ نشے کے اثرات کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص تقوا اور پرہیزگاری میں بہت مشہور تھا، تو ایک خاتون نے اُسے دامِ فریب میں گرفتار کرنا چاہا۔ عورت نے ایک لونڈی کو اُس شخص کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ فُلاں عورت آپ کو گواہی کے لیے بلا رہی ہے۔ جب وہ شخص عورت کے پاس پہنچا، تو دیکھا کہ عورت کے ساتھ شراب کی صراحی پڑی تھی اور ساتھ ایک معصوم لڑکا بھی تھا۔ عورت نے کہا، مَیں نے تمھیں اس لیے بلایا ہے کہ تو میری خواہشِ نفس کی تسکین کر، اس شراب میں سے ایک گلاس شراب پی لے یا اس لڑکے کو قتل کر۔ بزرگ شخص نے تینوں میں شراب پینا پسند کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اُسے سرور آنے لگا، تو کہا، ایک گلاس اور دو۔ اُس نے دوسرا گلاس بھی پی لیا۔ اس طرح وہ گلاس پر گلاس پیتا رہا اور اُس وقت تک وہاں سے نہ ہٹا، جب تک کہ اُس نے عورت سے صحبت کی اور لڑکے کو بھی ناحق قتل کر دیا۔
اس لیے ہر قسم کے نشے سے بچنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ انسان کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا عضوئے معطل بنا کر سماج پر بوجھ بنا دیتا ہے۔ نشے کے بارے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر نشے والی چیز حرام ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے عہد کیا ہے کہ جو شخص نشہ پیے گا، اُسے جہنمیوں کا پسینہ اور پیپ پلایا جائے گا۔‘‘ (مسلم)
ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’جو چیز زیادہ مقدار میں نشہ لائے، وہ تھوڑی بھی حرام ہے۔ ‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس اشخاص پر لعنت کی:بنانے والا، بنوانے والا، پینے والا، اُٹھانے والا، جس کے پاس اُٹھا کر لائی گئی ہو، پلانے والا، بیچنے والا، اس کی قیمت کھانے والا، خریدنے والا اور جس کے لیے خریدی گئی ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
نشہ یا خمر کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں۔ احادیث میں صرف شراب کا ذکر آیا ہے، تو اس سے مراد تمام نشہ آور اشیا ہیں۔ قرآنِ کریم میں بھی نشے پر سخت وعید آئی ہے۔ ملک کے دوسرے اضلاع کی طرح ضلع ملاکنڈ میں نشے کا فروغ عروج پر ہے، جو یہاں کی نوجوان نسل اور معاشرے کی تباہی اور بربادی کا سبب بن رہا ہے۔ گلی کوچوں کے بعد یہ منشیات کا کاروبار تعلیمی درس گاہوں تک پہنچ چکا ہے۔ ملاکنڈ میں ’’آئس‘‘ کا کاروبار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگر خبر نہیں، تو صرف ملاکنڈ انتظامیہ کو نہیں، جس کا سدِباب اس کی ذمے داریوں میں شامل ہے ۔
ملاکنڈ انتظامیہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے بچوں کو پال رہی ہے، بڑی بڑی گاڑیوں میں عیاشیاں کر رہی ہے، ایئرکنڈیشن دفاتر اور بنگلوں میں آرام سے زندگی گزار رہی ہے اور عوام کو جرائم پیشہ افراد، خاص کر منشیات فروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
ملاکنڈ کے شہر تھانہ میں بھی نشے کی وبا عام ہے، جو دردِ دل رکھنے والوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کٹک رہی ہے۔ معاشرے کے اِن دردِ دل رکھنے والوں نے بار بار ملاکنڈ انتظامیہ کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوششیں کیں، لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔
ملاکنڈ انتظامیہ اپنی ذمے داری ادا تو نہ کرسکی، البتہ منشیات فروشوں نے اب اپنے لیے خطرہ بننے والوں کو راستے سے ہٹانے کے بھرپور اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل منشیات فروشوں نے منشیات کے خلاف آواز اُٹھانے والوں میں سے ایک نوجوان چیئرمین ویلج کونسل بابا خیل (یوسی تھانہ) جمال الدین خان پر قاتلانہ حملہ کرتے ہوئے شدید زخمی کیا، جو آج تک بے ہوشی کے عالم میں سنٹرل ہسپتال سوات میں زیرِ علاج ہے۔
جمال الدین پر قاتلانہ حملے کے بعد بھی ملاکنڈ انتظامیہ منشیات فروشوں کے خلاف اقدام کرنے سے کترا رہی ہے۔ منشیات کے خلاف عوام میں شعور اور آگہی آچکی ہے۔ اگر انتظامیہ نے منشیات فروشوں کے خلاف اقدامات نہ کیے، تو ہو سکتا ہے کہ عوام قانون اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہو جائیں، جو معاشرے میں تباہی کے مترادف ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










