آج کا پاکستان ایک عجیب فکری اور جذباتی تقسیم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ تقسیم محض سیاسی یا نظریاتی نہیں رہی، بل کہ ہماری سماجی رگوں میں زہر کی طرح سرایت کرچکی ہے۔ قوم اس وقت دو انتہاؤں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے، جہاں ہر معاملے کو صرف سفید یا سیاہ رنگ میں دیکھا جاتا ہے…… اور درمیان کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہی۔ اس کی تازہ ترین مثالیں ہمیں ملاکنڈ یونیورسٹی میں ’’اتنڑ‘‘ (روایتی رقص) کے معاملے سے لے کر اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان جاری کش مہ کش تک، ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہے۔ ایک طرف ثقافتی آزادی کے علم بردار ہیں، تو دوسری طرف اخلاقی ضابطوں پر اصرار کرنے والے۔ ایک فریق کسی کو ملک سے وفادار ماننے کو تیار نہیں، تو دوسرا صرف اپنے موقف کو سچائی کا آخری معیار سمجھتا ہے۔
اس تقسیم کی سب سے بڑی قیمت جو ہم ادا کر رہے ہیں، وہ معاشرے میں مکالمے کا شدید ترین فقدان ہے۔ مکالمہ صرف ایک دوسرے کی بات سننے کا نام نہیں، بل کہ دلائل کی روشنی میں اپنے موقف پر نظرِ ثانی کرنے کی استعداد کا نام ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم سب اپنے کان بند کرکے صرف اپنی آواز سننا چاہتے ہیں۔ جب دلائل اور حقائق کی بہ جائے شور و غوغا غالب آ جائے، تو وہاں دلیل کی بے وقعتی یقینی ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دلیل کو اب دلیل سے کاٹا نہیں جاتا، بل کہ غصے اور جذبات کی لاٹھی سے مارا جاتا ہے۔ ہمارا فکری منظر نامہ ایک ایسے میدانِ جنگ میں بدل چکا ہے، جہاں فتح صرف چیخنے والوں کی ہوتی ہے، نہ کہ سچے اور حقائق پر مبنی موقف رکھنے والوں کی۔
اس فکری بانجھ پن کا سیدھا نتیجہ متشدد رویوں اور عدم برداشت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ سیاسی اجتماعات ہوں، سوشل میڈیا کے تبصرے ہوں یا پھر تعلیمی ادارے، ہر جگہ ایک بے چینی اور جھگڑالو پن محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں، جو صرف اپنے ہی موقف کو درست ماننے پر بہ ضد ہے، اور کسی بھی دوسرے نقطۂ نظر کو سننا یا سمجھنا کفر کے مترادف تصور کرتی ہے۔ یہی عدم برداشت جلد ہی ہمارے رویوں میں تندی اور تلخی پیدا کر دیتی ہے اور یہی تلخی باہمی احترام کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا ماحول گالم گلوچ اور ذاتیات پر حملوں سے آلودہ ہوچکا ہے۔ جب ہمارے پاس مضبوط دلیل ختم ہوجاتی ہے، تو ہم اخلاقیات کی حدود کو پار کرکے فوراً نازیبا زباں اور الزامات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو برے ناموں سے پکارنا، یا مخالفین کے فریقوں پر جھوٹے الزامات لگانا، آج کی صحافت اور سوشل میڈیا کا معمول بن چکا ہے۔ یہ روش ہمارے سیاسی کلچر کو تباہ کر رہی ہے اور سماجی تانے بانے کو کم زور بنا رہی ہے۔
اس سارے انتشار کا بنیادی محرک ہمارا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ اپنے ہی موقف کو درست ماننا ہے۔ ہم سچائی کی تلاش میں نہیں، بل کہ اپنے موقف کی تائید میں رہتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ہمیں فکری طور پر آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ جب ایک معاشرہ ہر وقت اپنی ہی بات کو حتمی سچائی قرار دے، تو وہ تنقیدی سوچ اور خود احتسابی کے عمل سے محروم ہوجاتا ہے۔ آج ہمیں اجتماعی طور پر اس رویے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے دلیل کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ہیں؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف وہ قومیں ترقی کرتی ہیں، جو اپنے اندر اختلافات کو برداشت کرنے کی ہمت اور دوسرے کے سچ کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سچ کی جستجو میں مکالمے کو بہ حال کرنا اور ہر دوسرے شخص کو، چاہے وہ ہمارا کتنا ہی بڑا سیاسی یا سماجی مخالف کیوں نہ ہو، انسان اور شہری کا درجہ دینا لازم ہے۔ بہ صورتِ دیگر، ہم یہ تقسیم در تقسیم کا کھیل کھیلتے رہیں گے اور یہ تلخی ہماری قومی یک جہتی اور فکری مستقبل کو مستقل طور پر نقصان پہنچاتی رہے گی۔ ہمیں ایک بار پھر دلائل کی حرمت کو قائم کرنا ہوگا، تاکہ ہم انتہاؤں سے نکل کر، اعتدال اور باہمی احترام کے راستے پر گام زن ہوسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










