بنیاد پرستی کو کئی دفعہ اسلام سے نتھی کیا جاتا ہے، جو تاریخی طور پر غلط ہے۔ اگر ہم بنیاد پرستی کی تشریح سے پہلے تاریخ میں اس کے احیا پر بات کریں، تو بنیاد پرستی کی تحریک یا نظریے کو 19ویں صدی کے اواخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں قدامت پسند مسیحیوں یعنی جان نیلسن ڈاربی، ڈیوائٹ ایل۔ موڈی، بی بی وارفیلڈ، بلی سنڈے اور دیگر لوگوں نے باضابطہ تشکیل دیا، جو کہ اس بات کی بہ دولت فکر مند تھے کہ جدیدیت کی وجہ سے اخلاقی اقدار ختم ہو رہی ہیں۔
جدیدیت کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ انسان (نہ کہ خدا ) اپنے ماحول کو تخلیق کرتے، بہتر بناتے اور اُس کو نئی شکل دیتے ہیں اور اِس کے لیے وہ سائنسی علوم، ٹیکنالوجی اور عملی تجربات کا سہارا لیتے ہیں۔ جدیدیت کے اثر و رسوخ سے لڑنے کے علاوہ کلیسا، جرمن کی اعلا تنقیدی تحریک سے بھی نبرد آزما تھی، جس نے کلامِ مقدس کی ’’لاخطائیت‘‘ سے انکار کر دیا تھا۔
اب یہ اوپر کا پیراگراف بہت توجہ طلب بن جاتا ہے۔ اسی پیراگراف کو سمجھتے ہوئے ہم بنیاد پرستی یا بنیاد پرست خیالات کو حقیقی طور پر سمجھنے میں کافی مدد لے سکتے ہیں۔ دراصل بنیاد پرستی، مسیحی عقیدے کے 5 بنیادی اُصولوں کی پاس داری اور پیروی کے گرد گھومتی ہے اور اس میں سے کسی ایک سے انکار یا شک دائرۂ مسیحیت سے نکال دیتا ہے۔
مذکورہ اُصول ملاحظہ ہوں:
1) بائبل خدا کا کلام ہے، بے خطا اور حتمی ہے۔ اس سے کسی قسم کا تضاد یا اختلاف باطل ہے۔
2) یسوع مسیح کی کنواری ماں سے پیدایش روح القدس کی قدرت سے حاملہ ہوکر ہوئی۔ وہ خدا کا بیٹا، بہ یک وقت کامل انسان اور کامل خدا ہے۔
3) مسیح کا گناہ گار انسانوں کے لیے صلیب پر کفارہ، اور یہ نظریہ خواہ کوئی خدا سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، کتنا گناہ گار کیوں نہ ہو، اس کو نجات خدا کے فضل سے مل سکتی ہے۔ یسوع مسیح نے تمام مسیحیوں کے لیے قربانی دی اور اُن کے گناہ معاف کروائے اور مسیح کو محض ماننے والا ہی جنت الفردوس کا مستحق ہے۔ وہ گناہوں کی سزا پاکر آخرِکار جنت جائے گا۔
4) ظالموں اور خطاکاروں کی جانب سے مصلوب ہوکر قتل ہونے کے بعد مسیح کا جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھنا۔ مصلوب ہونے کے تیسرے دن یسوع اپنی قبر میں سے جی اُٹھا تھا اور اِس وقت وہ خُدا باپ کی داہنی طرف بیٹھا ہوا ہے۔ اس پر مکمل ایمان اور یقین۔
5) کلامِ مُقدس میں بیان کردہ یسوع مسیح کی طرف سے کیے جانے والے معجزات حقیقی تھے، اور یسوع اپنی ہزار سالہ بادشاہی سے پہلے اِس زمین پر واپس آئے گا۔ وہی نجات دہندہ ہے، اس بات کا مکمل یقین رکھنا۔
بنیاد پرستی کی تحریک کی ایک واضح خصوصیت یہ رہی ہے کہ اِس کے حامی اپنے آپ کو سچائی کے سرپرست کے طور پر دیکھتے ہیں اور عام طور پر دوسروں کی طرف سے پیش کردہ ’’بائبلی تشریحات‘‘ کو بھی نہیں مانتے۔ جس وقت بنیاد پرستی کاآغاز ہوا، اُس وقت دنیا لبرل ازم، جدیدیت اور ڈارون ازم کو اپنا رہی تھی اور کلیسیا پر مختلف جھوٹے اُستادوں کی طرف سے حملوں کی بھرمار تھی۔ بنیاد پرستی بائبلی تعلیم کے نقصان کے خلاف ایک ردِعمل تھی۔
کلیسا آج مابعد جدیدیت، سیکولر ثقافت کے ساتھ نبردآزما ہے اور اسے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو مسیح کی خوش خبری کی منادی کرنے سے شرمندہ نہ ہوں۔ سچائی کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور بنیادی اُصولوں کی پاس داری ضروری ہے۔ یہ اُصول وہ بنیاد ہیں، جن پر مسیحیت قائم ہے اور جیسا کہ یسوع نے سکھایا ہے کہ جو گھر چٹان پر تعمیر ہوتا ہے، وہ ہر طرح کے موسمی حالات کا سامنا کر لے گا ۔
دوسرے مذاہب اور نظریات نے کلیسا کے بنیاد پرست نظریات، وابستگی، تصورات کو یا تو نقل کیا، یا عاریتاً لے کر اپنے معروضی ضروریات کے مطابق پیش کیا۔ ہم کَہ سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی نظریے یا مذہب میں بنیاد پرستی، مسیحی بنیاد پرستی سے ماخوذ ہے۔
اب اگر ہم مسیحی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے بنیاد پرستی کو سمجھتے ہیں، تو ان چند نِکات کو یاد رکھنا ہوگا کہ
٭ بنیاد پرستی (Fundamentalism) کا مطلب کسی نظریے، خاص طور پر مذہبی تعلیمات کی اصل یا بنیاد پر سختی سے قائم رہنا، اُنھیں بغیر کسی تبدیلی کے ہر دور اور ہر حال میں درست ماننا اور اُن کی تعبیر کرتے ہوئے تاریخی تناظر، سیاق و سِباق یا بدلتے حالات کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ لاطینی لفظ "Fundamentum” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے ’’بنیاد‘‘ یا ’’اصل‘‘۔
٭ اس کے مذہبی پہلو کا مطلب ہے، مذہبی تعلیمات کی ’’اصل‘‘ پر واپس جانا اور ان پر سختی سے عمل کرنا۔ اکثر جدید خیالات اور انسانی حقوق کی ترقیات کو مسترد کرتے ہوئے کچل دینا۔
٭ بنیاد پرست نظریات مذہبی متن کی تعبیر کرتے وقت اس کے تاریخی پس منظر (جیسے غلامی یا خواتین کے حقوق کے بارے میں اس وقت کے اقدامات یا معروضی حالات) کو نظر انداز کرتے ہیں اور انہیں دائمی اصول قرار دیتے ہیں۔ خواتین کے مساوی حقوق، نسل پرستی کے خاتمے اور دیگر سماجی اصلاحات کی مخالفت اس کی مثالیں ہیں۔ اور ان پر یقین رکھنے والوں یا ساتھ دینے والوں یا حمایت کرنے والوں کو اپنے طے شدہ دائرۂ مذہب سے باہر پھینک دیتے ہیں۔
قارئین! عام طور پر اوسط درجے سے نیچے اذہان بنیاد پرستی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے نظریات پر تنقید کو مذہب یا خدا پر تنقید تصور کرتے ہیں۔ یہ مکالمے اور مباحثے کے منکر، سخت گیر نظریات رکھتے ہیں اور اختلاف و اختلافِ رائے کو کوئی جگہ دینا گناہ سمجھتے ہیں۔
مسیحی بنیاد پرستی تحاریک اور کاوشوں نے دنیا بھر کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متاثر کیا اور جیسے مسیحیت سے الگ ایک نیا مذہب ’’بنیاد پرست مسیحیت‘‘ تشکیل پایا، جس نے مسیحیت میں کئی اختلافات اور فرقوں کو جنم دیا۔ ایسا تمام مذاہبِ عالم کے ساتھ ہوا۔
تاریخی، مذہبی، پیغامی اور تعلیمی لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحیت اور بنیاد پرست مسیحیت ایک دوسرے کے متضاد ہیں، مگر باد النظری میں بنیاد پرست مسیحیت کو ہی راسخ العقیدہ مسیحیت تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا تمام مذاہب اور نظریات کے ساتھ ہوا ہے، جہاں اصل مقصد اور پیغام کہیں دب گیا اور بنیاد پرست نظریات نے علم بلند کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










