کسی بھی ریاست کا آئین، ریاست اور عوام کے درمیان ایک تحریری عمرانی معاہدہ اور حکم رانی کے لیے ایک فریم ورک ہوتا ہے، جس کا مقصد ریاست اور عوام میں ذمے داریوں کی تقسیم ہے، تاکہ ریاستی کاروبار کو احسن طریقے سے انجام دیا جاسکے۔ پاکستان کو 1973ء تک ’’ریاستِ بے آئین‘‘ سمجھا جاتا تھا اور جب 1973ء کا آئین وجود میں آیا، تو اس کے خالق نے پارلیمان کے ذریعے اس میں 8 ترامیم کیں اور اس کے بعد اب تک 27 ترامیم ہو چکی ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم کے نِکات میں سرِفہرست آئینی عدالت کا قیام، آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کا از خود نوٹس کا متنازع اختیار ختم کرنا، صدرِ مملکت کو فوج داری مقدمات سے تاحیات استثنا، صوبائی گورنروں کو مدتِ ملازمت تک فوج داری مقدمات سے استثنا اور چیفس آف جائنٹ اسٹاف کا عہدہ ختم کرکے پاکستان کے آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس کی ذمے داری سونپنا شامل ہیں۔ اس میں فیلڈ مارشل، ایئر چیف اور بحریہ کے فیلڈ آف فلیٹ کو تاحیات مراعات اور فوج داری مقدمات سے استثنا بھی شامل ہے۔
اس آئینی ترمیم میں کل 59 ترامیم شامل ہیں، جن پر لکھنے کے لیے فوری طور پر ایک پوری کتاب درکار ہے، لہٰذا یہاں مذکورہ ترامیم پر تفصیل سے بحث ممکن نہیں۔ البتہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے اور عدلیہ کو انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ زمینی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عدلیہ اور عدالتی نظام تو کب کا تباہ ہو چکا ہے، اس لیے عدالت پر کل کسی کو بھروسا تھا اور نہ آج ہی ہے۔ کیوں کہ ہماری عدالتیں انصاف دینے سے قاصر ہیں۔
تاریخ کی ورق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ خصوصاً پاکستان کی تاریخ میں آئینی ترامیم ہمیشہ کسی بحران کے نتیجے میں آئیں اور اُن کا مقصد محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 8 ترامیم کیں، لیکن پھر بھی اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔
اس طرح جنرل ضیاء الحق کی 8ویں ترمیم عسکری بیانیے کے تحفظ کے لیے لائی گئی اور 18ویں ترمیم ایک جمہوری بیانیے کے طور پر سامنے آئی۔ اب 26ویں اور 27ویں ترامیم لائی گئی ہیں، جو مکمل جمہوری ہیں اور نہ عسکری، بل کہ ان میں جمہوری روح کم اور کنٹرول کا نظام زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ 27ویں ترمیم کے لیے وہی دلیل استعمال کی جا رہی ہے، جو ہمیشہ اقتدار کے ارتکاز کے لیے جواز فراہم کرتی ہے، حالاں کہ حقیقت یہی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں ہر ’’اصلاح‘‘ کے نام پر اختیارات میں اضافہ ہوا اور جواب دہی میں کمی آئی۔
26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم دراصل ریاست کے تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) کے بارے میں آئین میں درج طاقت کے تکون کے تصور کو موثر طریقے سے منہدم کرتی ہیں، جو ایک دوسرے سے آزاد اپنی اپنی حدود میں کام کرتی ہیں۔ ان ترامیم نے عدلیہ کو طاقت ور اشرافیہ کے زیرِ نگین کرتے ہوئے، اسے مقدمے کے مواد اور میرٹ کی بنیاد پر پاکستان کے عوام کے لیے انصاف کی فراہمی کے حق اور ذمے داری سے محروم کر دیا ہے۔
عوام کو اس ترمیم میں عوامی نمایندگی کا تاثر تو برقرار نظر آئے گا، مگر اب فیصلے عوامی نہیں، بل کہ ادارہ جاتی ہوں گے۔ یہ ترامیم عوام کی آواز کے بغیر طے کی گئیں اور آیندہ بھی طے کی جائیں گی۔ آئین کی روح، جو کبھی عوام کی شراکت اور عوامی نمایندگی کی علامت تھی، اب ایسے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جہاں فیصلے بند کمروں میں طے پانے کے بعد پارلیمان کی مہر لگاکر قانونی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔
آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد ایک نئی فیڈرل آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جو آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کا واحد فورم ہوگا۔ اس کے قیام سے سپریم کورٹ کا بنیادی دائرۂ عمل محدود ہوکر رہ گیا ہے اور اس کے لیے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ زیادہ ہے…… جب کہ حقیقت یہی ہے کہ یہ اقدام عدلیہ کی خودمختاری کو بہ تدریج کم زور کرنے کی سمت پہلا قدم ہے، کیوں کہ سپریم کورٹ کا کردار اب محض اپیل کی عدالت بن کر رہ جائے گا۔
ترمیم کا مقصد دراصل یہ ہے کہ عدالت، جو کبھی آئینی حدود کی نگہ بان تھی، اب ایک نئے عدالتی ڈھانچے کے تحت حکومت کے قریب تر لائی گئی ہے۔ اگر انصاف کی دیواریں حکومت کی زیرِ نگرانی تعمیر کی جا رہی ہوں، تو عمارت کبھی فائدہ مند اور پائیدار ثابت نہیں ہو سکتی۔
اس ترمیم کے بارے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے استعفے کے متن میں کہا ہے کہ ’’27ویں آئینی ترمیم، آئینِ پاکستان پر سنگین حملہ ہے۔ اس آئینی ترمیم نے عدلیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے حکومت کا ماتحت بنا دیا ہے۔ آئینی ترمیم سے جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی گئی ہے اور ملک کی اعلا ترین عدالت کو منقسم کرکے عدلیہ کی آزادی کو پامال کیا گیا ہے، جس سے ملک دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔‘‘
26ویں آئینی ترمیم حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو بری طرح ہلا چکی تھی، جب کہ 27ویں آئینی ترمیم نے تو آئین کو عملی طور پر قتل کر دیا ہے۔ بعض ریاستی اداروں کے سربراہان کو فوج داری مقدمات سے استثنا اسلام میں جائز ہے اور نہ عہدِ جدید کے جمہوری نظام میں۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی ہزار قتل کرے، یا کھربوں روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچائے، اُس سے کوئی بازپرس نہیں ہوسکے گی۔ اس طرح بعض ریاستی اداروں کو تاحیات مراعات دینا اس غریب ملک کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔
اب یہ کہنا درست ہوگا کہ 27ویں ترمیم آئینی نہیں، بل کہ سیاسی ترمیم ہے، جس کا تعلق اقتدار کی حرکیات سے زیادہ ہے نہ کہ قانون کی باریکیوں سے۔ یہ ترمیم ریاستی توازن کے اُس دھاگے کو کم زور کر رہی ہے، جس پر پاکستان کی جمہوریت کسی نہ کسی طور قائم رہی ہے۔ اس ترمیم کے اثرات کاغذوں تک محدود نہیں رہیں گے، بل کہ اداروں کے کردار، عدالتی فیصلوں اور سیاست کے مزاج میں ظاہر ہوں گے…… اور ہمیں تب سمجھ آ جائے گی کہ آئینِ پاکستان صرف دفعات کا مجموعہ نہیں، بل کہ اجتماعی ضمیر کا عہد ہے…… اور جب عہد ٹوٹتا ہے، تو پھر قانون نہیں رہتا اور جمہوریت مر جاتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










