پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں مسائل اپنی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ مسائل نہ صرف ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بل کہ عوام کو روزمرہ کی زندگی میں اذیت سے دوچار کرتے ہیں۔ یہ اذیت اکثر غیر ضروری مشغولیات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جس میں قوم کا وقت اور توانائی برباد ہوتی ہے، اور کہیں کہیں اسے غیر سنجیدہ یا بے وقوف بنانے کی نیت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ مسائل اور عوام کی توجہ کی تقسیم:۔ دنیا کے دیگر ممالک میں عوام اکثر حکومت کی ناکامی یا معاشرتی چیلنجز کے حوالے سے خبروں اور تعلیم پر توجہ دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں سیاسی ماحول ایسا ہے کہ عوام کی توجہ اکثر حقیقی مسائل سے ہٹا دی جاتی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ سیاسی سرگرمیاں ہیں۔ روزانہ جلسے ، جلوس، احتجاج، دھرنے اور مظاہرے ، جو بہ ظاہر جمہوری اظہار کا حق ہیں، لیکن عملی طور پر ملک کے بیڑے کو غرق کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں ایک دائمی شغل بن گئی ہیں، جس سے سیاسی کردار اور فیصلے تو زور پکڑتے ہیں، لیکن حقیقی ترقی اور عوامی فلاح کے کام رُک جاتے ہیں۔ ملک کے وسائل، وقت اور توانائی کا بڑا حصہ صرف سیاسی تقریروں، بیان بازی اور احتجاج میں ضائع ہوتا ہے۔
٭ سیاسی سرگرمی یا عوامی اذیت؟:۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض اوقات یہ سرگرمیاں عوام کے لیے اذیت کا سبب بنتی ہیں ٹریفک جام اور شہری زندگی میں خلل کی صورت میں، کاروباری اور تعلیمی سرگرمیوں کے رُک جانے کی صورت میں اور سماجی انتشار اور غیر ضروری سیاسی بحث کی صورت میں۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ سرگرمیاں جمہوریت کی علامت ہیں، یا عوام کے لیے مسلسل عذاب ہیں؟ اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں سیاسی سرگرمیاں خودمختاری اور جمہوری حق کے نام پر اتنی شدت اختیار کر گئی ہیں کہ یہ ملک کے مسائل کو بڑھانے اور عوام کو غیر ضروری طور پر مشغول رکھنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ اگر واقعی ملکی ترقی اور عوامی فلاح کو ترجیح دی جائے، تو چند عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ
٭ ضرورت سے زیادہ احتجاج اور دھرنے پر پابندی یا ضابطہ کاری، تاکہ شہری زندگی، کاروبار اور تعلیم متاثر نہ ہوں۔
٭ سیاسی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے قانون سازی، یعنی دھرنوں، جلسوں اور جلوسوں کے قواعد وضع کیے جائیں، تاکہ یہ صرف جمہوری اظہار تک محدود رہیں، ملک کی معیشت یا عوام کی زندگی کو متاثر نہ کریں۔
٭ عوامی آگاہی اور میڈیا کا کردار، اس حوالے سے عوام کو تعلیم دی جائے کہ سیاسی سرگرمیاں حق ہیں، لیکن ان کا مقصد معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ جڑنا چاہیے، صرف احتجاجی جذبات سے نہیں۔
قارئین، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سیاسی سرگرمی اور احتجاج جمہوری اظہار کے اہم ستون ہیں، لیکن جب یہ سرگرمیاں عوام کو مشغول رکھنے، وقت ضائع کرنے اور ملک کے مسائل بڑھانے کا ذریعہ بن جائیں، تو ان کا جمہوری حق بھی سوال کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ اگر ملکی قوانین اور ضابطے اس عمل کو متوازن کریں، اگر سیاسی کارروائیاں صرف حقیقی مسائل کے حل اور عوام کی فلاح کے لیے محدود ہوں، تو ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکتا ہے اور عوام اس روزمرہ کی اذیت سے نجات پا سکتے ہیں۔ اور یہ صرف اُس وقت ممکن ہے، اگر جمہوری حقوق اور ذمے داریوں کا توازن قائم کیا جائے، تاکہ پاکستان ایک حقیقی جمہوری اور ترقی پسند ملک بن سکے۔
یہاں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ احتجاج اور دھرنے صرف سیاسی اظہار نہیں، بل کہ وسائل کے استعمال کا بھی معاملہ ہیں۔ اگر یہ سرگرمیاں حکومتی پارٹی کی جانب سے کی جاتی ہیں، تو اکثر سرکاری وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ، انتظامیہ اور عوامی سہولیات کے پیسوں کا استحصال ہوتا ہے، جو دراصل قومی خزانے کے ساتھ خیانت اور عوام کے حق پر ڈاکے کے مترادف ہے۔ اور اگر یہ سرگرمیاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہوتی ہیں، تو اس کا بوجھ بہ راہِ راست کارکنوں کی جیب پر آتا ہے۔ یہ رقم مختلف عنوانات سے لی جاتی ہے:کبھی مذہبی، کبھی جمہوری، تو کبھی لیڈر کی خوش نودی کی آڑ میں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ احتجاج صرف ایک سیاسی عمل نہیں، بل کہ وسائل اور طاقت کے غلط استعمال کی ایک وسیع مثال بھی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی سرگرمی اور احتجاج، جمہوری اظہار کے اہم ستون ہیں، لیکن جب یہ سرگرمیاں عوام کو مشغول رکھنے ، وقت ضائع کرنے اور ملک کے مسائل بڑھانے کا ذریعہ بن جائیں، تو یہ حق بھی سوال کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ قیادت کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ اختلاف اور احتجاج کو نتیجہ خیز، معقول اور عوامی فلاح کے لیے محدود رکھے۔ اگر ملکی قوانین اور ضابطے اس عمل کو متوازن کریں، اگر سیاسی کارروائیاں صرف حقیقی مسائل کے حل اور عوام کی فلاح کے لیے محدود ہوں، تو ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکتا ہے،اور عوام اس روزمرہ کی اذیت سے نجات پا سکتے ہیں۔
یہ صرف اُس وقت ممکن ہے، جب جمہوری حقوق اور ذمے داریوں کا توازن قائم کیا جائے، تاکہ پاکستان ایک حقیقی جمہوری، ترقی پسند اور عوام دوست ملک بن سکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










