آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مینگورہ شہر بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ ڈینگی، ملیریا، کورونا، آلودگی، چوہوں کی بے تحاشا افزایش، شہری سیلاب کے خدشات، بے ہنگم ٹریفک، ٹریفک جام، سینے اور سانس کے امراض اور نہ صرف مینگورہ شہر بل کہ پورے ملاکنڈ ڈویژن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے مریض…… اگر ان تمام مسائل کو قدرتی نہیں، بل کہ مصنوعی اور اس سے بڑھ کر مسلط کردہ سمجھا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔
مسائل بیان ہوتے رہتے ہیں، لیکن جب اُن کے اسباب و وجوہات پر غور کیا جائے، تو اُن کا حل نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ میونسپل کمیٹی مینگورہ ایک قدیم ادارہ ہے۔ والیِ سوات کے بعد اگر کسی نے اس شہر کے لیے حقیقی خدمات انجام دی ہیں، تو وہ یہی ادارہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے جب صوبائی حکومت پر ایک ’’غیر سیاسی ہائبرڈ نظام‘‘ مسلط کیا گیا، تو اس نے بہ ظاہر سہولت کاری کا دعوا کرکے عام شہریوں کی زندگی دشوار کر دی۔ بیرونی ممالک کے ’’کٹ، کاپی، پیسٹ‘‘ محکمے یہاں لا کر صوبے کو انتظامی گھٹن میں مبتلا کر دیا۔ اسی طرز پر میٹروپولیٹن شہروں کی نقل میں ’’واسا‘‘ (Water and Sanitation Services Compnay) جیسے ادارے کی جگہ ایک نجی کنٹریکٹر کو ملتا جلتا نام دے کر پورے صوبے کا بنیادی میونسپل ڈھانچا مخصوص افراد میں بانٹ دیا گیا۔
مینگورہ میں بھی ’’واسا‘‘ کی جگہ ایک ایسے ٹھیکے دار کو شہر کے تمام اختیارات دے دیے گئے، جس کا شہر سے کوئی تعلق ہے، نہ کوئی ’’سٹیک‘‘ (Stake) اور نہ ہم دردی ہی ہے۔ صفائی، جو میونسپل کمیٹی بہترین طریقے سے کر رہی تھی، بلاجواز اُس ٹھیکے دار کے حوالے کر دی گئی۔ واٹر سپلائی بھی میونسپل کمیٹی احسن انداز سے چلا رہی تھی۔ شہر میں جگہ جگہ پانی کے نلکے نصب تھے، جب کہ ٹانگوں اڈّا ملابابا میں ایک بڑی ٹینکی موجود تھی، جو شہر کی پہچان سمجھی جاتی تھی۔ اُسے بھی ’’شاہی خاندان‘‘ کو انعام کے طور پر کرائے پر دے دیا گیا۔ اُسی خاندان کے ایک فرد کو مطلوبہ تعلیمی و تکنیکی معیار نہ ہونے کے باوجود رشوت کے طور پر بڑا عہدہ دیا گیا۔
پشتو مثل ’’یوہ ویم بلہ رایادیگی‘‘ کے مصداق، کوترو میرہ میں ڈمپنگ سینٹر بنایا گیا، جہاں پر کچرا مسلسل ڈالا جا رہا ہے۔ شہر نیچے اور کچرا اوپر ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی زہریلا ہوچکا ہے۔ کوترو میرہ اور قریبی علاقوں کے پانی کے نمونے لیے اور ٹیسٹ کیے گئے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ باقی شہر میں بھی زیرِ زمین پانی شدید حد تک آلودہ ہوچکا ہے۔ محکمۂ صحت، ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے شعبوں میں 50، 50 لاکھ روپے پر مبینہ بھرتی ہونے والے افسران کے پاس اس کے متعلق رپورٹ تیار کرنے کی صلاحیت تک نہیں۔
اور تو اور مینگورہ اور سیدو کے درمیانی علاقے میں، ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے چند فرلانگ دور چنار کالونی کا ’’ڈمپنگ پوائنٹ‘‘ بھی پورے شہر کا کچرا جمع کرتا ہے اور جواب میں کورونا، ملیریا، ڈینگی اور چوہوں کی افزایش کا مرکز بن چکا ہے۔ آبادی کے عین وسط میں کچرے کے ٹرک اور بھاری مشینری بغیر کسی روک ٹوک کے چل رہی ہے۔ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ٹریفک پولیس حرکت میں آئی، نہ سیدو گروپ کے ڈاکٹروں ہی نے کبھی آواز اٹھائی۔ اس حوالے سے محکمۂ ماحولیات کو فکر ہے اور نہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اب تک اس پر سنجیدگی ہی دکھائی ہے۔
میرے خیال میں تو لاکھوں افراد کو گندگی، تعفن اور بیماریوں کے درمیان رہنے پر مجبور کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ فوری طور پر اس نجی ٹھیکے دار کو برطرف کرکے اختیارات میونسپل کمیٹی کو واپس دیے جائیں، تاکہ شہر کے ساتھ تعلق رکھنے والا ادارہ محض پیسے بنانے کے بہ جائے خدمت پر توجہ دے سکے۔
مذکورہ ٹھیکے دار کے ساتھ ’’زیڈ کے بی‘‘ نامی ادارے کے اشتراک سے 16 ارب روپے کی ’’واٹر گریوٹی اسکیم‘‘ بھی اہلِ مینگورہ کے لیے عذابِ جاں بن چکی ہے ۔ ’’زیڈ کے بی‘‘ سے ماسٹر پلان پر کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ 16 ارب روپے کے منصوبے میں تعلیم، ٹریفک، ماحولیات اور تفریح سے متعلق جو سہولیات منصوبہ کا حصہ تھیں، اُن کا کوئی ذکر تک نہیں۔ ہر کھلنے والا منھ پیسوں سے بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ’’ماہرینِ کرپشن‘‘ بہتی گنگا میں ہاتھ پیر کیا پورے کا پورا اشنان فرما رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب ’’زیڈ کے بی‘‘ کے تمام منصوبوں کی فائلیں حاصل کرے، حساب کتاب کا جائزہ لے، متروک منصوبوں کی بازپرس کرے، مبینہ کرپشن کے ذمے داروں کا تعین کرے اور اُنھیں قرارِ واقعی سزا دلوائے۔
شہر کا ایک بڑا مسئلہ پولیس کے حوالے سے ہے۔ سوات پولیس سے غیر مقامی اہل کاروں کو ان کے اضلاع میں واپس بھیجا جائے، یا اُنھیں ریزرو فورس کا حصہ بنایا جائے۔ ایک طرح سے ’’کمیونٹی پولیسنگ‘‘ متعارف کروائی جائے۔
ایک اور مسئلہ کی طرف ڈی ایچ اُو اور سیدو گروپ آف ہاسپٹلز کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔گذشتہ 10برسوں کے وائرس، آلودگی اور چوہوں سے پھیلنے والی بیماریوں پر ایک جامع رپورٹ شائع کرنا از حد ضروری ہے۔ اگر یہ ڈیٹا موجود نہیں، تو کم از کم ’’کورونا‘‘ اور ’’پوسٹ کورونا‘‘، ’’ڈینگی’’، ’’ملیریا‘‘، ’’کینسر‘‘، سانس (سینے)‘‘، ’’معدے‘‘ اور خصوصی طور پر ’’ایچ پائلوری‘‘ اور ’’ایچ آئی وی‘‘ سے متعلق سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ تقابلی رپورٹ پیش کی جائے۔
شہر میں ذکر شدہ مسائل، نااہلی، غیر دانش مندانہ فیصلے، کرپشن اور بے عملی سب مل کر انسانی المیے کو جنم دے رہے ہیں۔ شہری صرف آبادی بڑھنے کو مسئلہ سمجھتے ہیں، حالاں کہ کچھ اداروں کے مجرمانہ اقدامات آبادی سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہیں۔ سول سوسائٹی، وکلا، ڈاکٹر، طلبہ اور سیاسی جماعتیں مل کر شہر کو بچانے کے لیے نکلیں اور ذکر شدہ مسائل کو سمجھ کر اُن کے بروقت حل کی طرف قدم اُٹھائیں۔
جاتے جاتے، لال سلام اُن وکلا کو، جنھوں نے عدالت سے انصاف مانگتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔ اب شہر کو اُن کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










