خبر ہے کہ بہاولنگر میں پولیس نے دولھے کو مہندی کی رات گرفتار کرلیا۔ کیوں کہ مبینہ طور پر دولھے نے ساؤنڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس کے بعد اُس کو شیروانی سمیت ساری رات تھانے کی حوالات میں رکھا گیا۔ حالاں کہ صبح اُس کی بارات روانہ ہونا تھی۔ دولھے کو شادی والے لباس میں ہتھکڑی لگا کر پولیس نے عدالت میں پیش کیا اور علاقہ مجسٹریٹ سے 14 روز کے ریمانڈ کی درخواست کی۔ تاہم معزز عدالت نے دولھے اور اس کے ساتھی کو مقدمہ سے بری کر دیا، جس کے باعث وہ رہا ہو گیا اور پھر وہ بارات لے کر اپنی دلھن کو لینے گیا۔
پتا چلا ہے کہ گرفتاری کے وقت اہلِ خانہ پولیس کی منت سماجت کرتے رہے اور اللہ رسول کے واسطے دیتے رہے کہ انسانی ہم دردی کے تحت کم از کم دولھے کو گرفتار نہ کیا جائے۔ اُنھوں نے پیش کش کی کہ اس کی جگہ دوسرے افراد کو گرفتار کر لیا جائے، لیکن وکیل کے مطابق پولیس کو کوئی ترس نہیں آیا اور دولھا اور اس کے شہ بالا کو ساری رات حوالات میں گزارنی پڑی۔ ظاہر ہے دولھا بے چارہ کسی غریب یا انتہائی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوگا، جس کی پہنچ کسی ایم پی اے کے سیاسی ورکر تک نہیں ہوگی، ورنہ نام زد پرچہ ہونے کے باوجود بھی ایسے کیس میں بندہ شخصی ضمانت پر رہا ہو جایا کرتا ہے۔ بہ ہرحال ایک ہاتھ میں شگنوں کا گانا اور دوسرے ہاتھ میں ہتھکڑی پہنے ملزم قمر زمان کو جب اگلی صبح مجسٹریٹ راؤ محمد زبیر صابر کی عدالت میں پیش کیا گیا، تو اُنھوں نے اُسے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی آر میں ملزم کے خلاف نفرت انگیز یا اشتعال انگیز تقریر کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں، جب کہ تفتیشی افسر نے کسی گواہ کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ خود ہی تفتیشی افسر تھا۔ اس لیے منصفانہ تفتیش ممکن نہیں تھی۔ عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کی فوری رہائی اور تمام ضبط شدہ جائیداد واپس کرنے کا حکم دیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ چودہ روزہ ریمانڈ حاصل کر کے پولیس کس قسم کی تفتیش اور کیا برآمد کرنا چاہتی تھی؟
جہاں تک پولیس والوں کا تعلق ہے، تو شاید اُنھیں یہ ہدایات دے دی گئی ہیں کہ ساؤنڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑنا۔ اسی لیے آئے دن کوئی نہ کوئی شوقین مزاج اونچی آواز میں گانا سن کر اپنا رانجھا راضی کرنے کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدا رائے ونڈ روڈ پر لاہور کی جانب جانے والے ایک نوجوان کار ڈرائیور سے ہوئی، جو پچھلی رات کے وقت نورجہاں کی آواز میں گانا ’’جھانجھر دی پاواں چھنکار‘‘ سنتے ہوئے جا رہا تھا کہ اُسے دھر لیا گیا۔
اس کے بعد اوکاڑا کا ایک رکشہ ڈرائیور نوجوان نصیبو لال کا گانا ’’مینوں سُتی نوں جگا کے آپ سون لگا ایں، کی ظلم کماؤن لگا ایں‘‘ اونچی آواز میں سنتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ گانا اتنی اونچی آواز میں تھا کہ اردگرد کے لوگ بھی محظوظ ہونے لگے۔ یہ بات ٹریفک وارڈن کو پسند نہ آئی اور رکشہ ڈرائیور حوالات میں جا پہنچا۔
اُدھر حبیب آباد میں ایک نوجوان کو نورجہاں کا گانا ’’ویکھ وے دن چڑھیا کہ نہیں‘‘ اونچی آواز میں سننا مہنگا پڑگیا، جب کہ میرا شہر منڈی احمد آباد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ جہاں ٹریکٹر ڈرائیور بابر اونچی آواز میں ظفر علی ظفری کا گانا ’’اسی پاگل ہوئے سجنا وے، اینا پیار تیرے نال کرنے آں‘‘ سنتے ہوئے عمر حیات اے ایس آئی کی گرفت میں آگیا۔
درج بالا تمام کیسوں میں گانا سننے والے تمام ملزمان عدالت میں جا کر بری ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام ایف آئی آر غیرقانونی تھیں۔ اُن میں سے کوئی ایف آئی آر بھی سیکشن 6، پنجاب ساؤنڈ سسٹمز (ریگولیشن) ایکٹ، 2015ء کے زمرے میں نہیں آتی۔ پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کا مقصد ایسے نفرت انگیز تقاریر یا اعلانات پر قابو پانا ہے، جو لسانی، نسلی، صوبائی یا علاقائی تنازعات یا دہشت گردی کو جنم دے سکتے ہوں۔ گانا سننے والوں کے خلاف ایسا کوئی سنگین الزام نہیں لگایا گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے پولیس پیش بندی کے طور پر ہاتھیوں کو خبردار کرنے کے لیے لیلوں کو پکڑ رہی ہے۔
بات ٹریکٹروں اور گاڑیوں سے ہوتی ہوئی شادی بیاہ کی تقریبات تک پہنچ گئی ہے۔ پولیس کو جرائم کی روک تھام کی بہ جائے عوام کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں قتل کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ماحول میں پہلے ہی بہت گھٹن ہے۔ اگر گانا سن کر لوگ اپنا جی خوش کرلیتے ہیں، تو اس سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ لوگوں کا کتھارسس ہو جاتا ہے۔ اُن کے اندر کی حبس میں کمی آجاتی ہے۔ ساؤنڈ ایکٹ کا نفاذ نفرت اور اشتعال انگیز تقاریر تک ہی محدود رکھا جائے، تو مناسب ہے۔ عوام کو اتنا زیادہ مت دبائیں کہ ردِعمل کے طور پر وہ پھٹ پڑیں۔
برسبیلِ تذکرہ، شیخ سعدی کی ایک حکایت یاد آ گئی۔ گلستانِ سعدی میں ایک حکایت بابِ اوّل: در سیرتِ پادشاہاں میں مذکور ہے۔ جس کے مطابق روایت ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے دوران میں ایک ہرن پکڑ لایا۔ اُس نے اپنے غلام سے کہا کہ اسے ذبح کر کے بھون لاؤ۔ غلام نمک لینے کے لیے گاؤں کی طرف گیا۔ بادشاہ نے کہا: ’’نمک قیمت دے کر خریدنا، تاکہ یہ رسم نہ پڑے اور گاؤں برباد نہ ہو۔‘‘
غلام نے عرض کیا: ’’حضور! اتنی سی بات سے کیا فرق پڑے گا؟‘‘
بادشاہ نے فرمایا:’’دنیا میں ظلم کی بنیاد ابتدا میں بہت معمولی تھی، مگر ہر آنے والے نے اس میں کچھ اضافہ کیا، یہاں تک کہ یہ نوبت آ پہنچی۔‘‘
شیخ سعدیؒ اس حکایت کے ذریعے یہ سبق دیتے ہیں کہ اگر بادشاہ یا حکم ران اپنے ماتحتوں کو معمولی ظلم یا زیادتی کی اجازت بھی دے دے، مثلاً: رعایا سے نمک بھی بغیر قیمت لینے کا کہے، تو وہ لوگ رفتہ رفتہ بڑی بڑی زیادتیاں اور ظلم شروع کر دیں گے۔ چھوٹا ظلم بڑا بن جاتا ہے، جس سے انصاف کا نظام کم زور ہو جاتا ہے۔
ساؤنڈ سسٹم ایکٹ 2015ء بھی نفرت انگیز مواد سے سفر کرتا ہوا لوگوں کی خوشیوں کو غارت کرنے تک آ پہنچا ہے۔ اب لوگ اپنی شادی بیاہ پر ساؤنڈ سسٹم نہیں چلا سکتے۔ خدارا! پولیس کے ان لامحدود اختیارات کو محدود کر کے عوام کو تازہ ہوا میں سانس لینے دیجیے۔ گھٹن اور حبس کی فضا تخلیق کر کے عوام کی سانسیں بند نہ کیجیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










