MDCAT امتحان خوابوں کا مقتل اور نئے راستے

Blogger Noor Muhammad Kanju

26 اکتوبر کو ملک بھر میں ’’ایم ڈی کیٹ‘‘ (MD-CAT) کا امتحان منعقد ہوا۔ یہ وہ دن تھا، جب ہزاروں نوجوان طلبہ نے، جن کی آنکھوں میں ڈاکٹر بننے کا چمکتا خواب تھا، اپنی برسوں کی نہ تھکنے والی محنت، بیدار راتوں کے مطالعے اور والدین کی بیش بہا قربانیوں کا نچوڑ چند گھنٹوں کے پرچے پر انڈیل دیا۔ یہ محض ایک امتحان نہیں تھا؛ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے ثابت کر دیا کہ ہمارا تعلیمی نظام کس قدر بے رحم اور غیر منصفانہ ہے۔ امتحان ختم ہوا اور اب ہر طرف خوشیوں اور غموں کی لہریں ہیں۔ صرف چند خوش قسمت ہی ’’ایم بی بی ایس‘‘ (MBBS) کے مقدس دروازے سے گزر پائیں گے، جب کہ ایک بڑی تعداد کے خواب اور ارمان اس میرٹ کی دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ چکے ہیں۔
اس عجیب حقیقت پر غور کریں کہ طالب علم کے 12 سال کی نہ تھکنے والی تعلیمی کوششیں، اساتذہ کی رہ نمائی اور والدین کی دعائیں سب چند گھنٹوں کے ایک معروضی (Objective) امتحان میں محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہ کیسی ترازو ہے، جہاں صلاحیت کا وزن ایک ہی پلڑے میں ڈالا جاتا ہے؟ ایک غلط سوال، ایک لمحے کی گھبراہٹ یا ماحول کی معمولی سی بے چینی…… اور انسان کی ساری محنت، کوشش اور قابلیت بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ کیا یہ نظام درحقیقت ایک قابل اور باصلاحیت ڈاکٹر کا انتخاب کر رہا ہے یا محض اُس طالب علم کو پرکھ رہا ہے، جس کی یادداشت اس مخصوص دن سب سے زیادہ تیز اور ٹھوس تھی؟
یہ نظام، جس میں چھوٹی سی غلطی آپ کو زندگی کی سب سے بڑی کام یابی سے محروم کرسکتی ہے، قابلیت اور محنت کو اکثر ضائع کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے باصلاحیت اور محنتی طلبہ مایوسی کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں اور تعلیمی میدان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ قومیں محض امتحانات کی سخت طاقت سے نہیں، بل کہ ایک اچھے، لچک دار تعلیمی نظام، درست رہ نمائی اور مسلسل حوصلے کی برکت سے تعمیر ہوتی ہیں۔ ہمیں خوابوں کو توڑنے کے بہ جائے، اپنے طلبہ کو وہ میدان فراہم کرنا چاہیے، جہاں وہ اپنے ارمان پورے کرسکیں۔
یہیں پر والدین، تعلیمی اداروں اور حکومتی پالیسی سازوں کی ذمے داری کا آغاز ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ ہم طالب علم کو یہ نفسیاتی سہارا اور عملی رہ نمائی فراہم کریں کہ ناکامی، ایک عارضی موڑ ہے، زندگی کی شاہ راہ کا اختتام نہیں۔ ہمیں انھیں یہ باور کرانا ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ میں عدم کام یابی درحقیقت وسعتِ امکانات کی طرف ایک اشارہ ہوسکتی ہے۔ آج کی دنیا صرف طب اور انجینئرنگ کے محدود دائروں تک مقید نہیں۔ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس ، AI)کا ہے۔ جو طالب علم بائیولوجی کے تصورات میں دل چسپی رکھتا ہے، مگر ایم بی بی ایس نہ کرسکا، وہ بائیو انفارمیٹکس میں جا کر میڈیکل ریسرچ میں انقلاب لاسکتا ہے۔ جو ریاضی اور لاجک میں اچھا ہے، وہ فنانشل ٹیکنالوجی (Fintech) یا ای کامرس (E-Commerce) کے بڑھتے ہوئے میدان میں کروڑوں کے کاروبار کھڑے کرسکتا ہے۔
والدین اور ادارے ورک شاپس، کیریئر کونسلنگ سیشنز اور ایکسپوژر وزٹس کے ذریعے طلبہ کو جدید شعبوں جیسے سیاحت (ٹورازم)، بزنس مینجمنٹ، ڈیٹا اینالیٹکس، میڈیا سائنسز اور سب سے اہم، فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم (Vocational & Technical Training) سے روشناس کرائیں۔ میڈیکل کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے طلبہ کو ہنر اور تکنیکی مہارتوں کی اہمیت سمجھائی جائے، تاکہ وہ احساسِ کم تری کا شکار نہ ہوں۔ ہمیں فنی مہارتوں کو بھی اتنا ہی باعزت مقام دینا ہوگا، جتنا ایک ڈگری کو حاصل ہے۔ ایک ہنر مند الیکٹریشن یا سافٹ ویئر ڈویلپر، مستقبل کی معیشت کا اتنا ہی اہم ستون ہے، جتنا کہ ایک ڈاکٹر یا انجینئر۔ یہ ایک وسیع سوچ ہے، جو طالب علم کو صرف ایک تنگ گلی میں دھکیلنے کے بہ جائے ، اسے آسمان کی وسعتیں دکھاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ملکی نصابِ تعلیم پر نظرِ ثانی کریں۔ نصاب کو ایسا ہونا چاہیے، جو طلبہ کی فکر کو وسعت دے اور ان کا مطمحِ نظر صرف ایم بی بی ایس یا انجینئرنگ تک محدود نہ ہو۔ ہر بچے میں ایک منفرد صلاحیت چھپی ہوتی ہے اور ہمارا نظامِ تعلیم اس صلاحیت کو دریافت کرنے اور پروان چڑھانے میں مددگار ہونا چاہیے، نہ کہ اسے ایک ہی سانچے میں ڈھالنے پر مصر ہو۔ وہ طلبہ جنھیں اس امتحان میں کام یابی نہیں ملی، اُنھیں تنقید یا طنز کا نشانہ بنانے کے بہ جائے، اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اُن کی ہمت بندھائی جانی چاہیے اور اُنھیں بتایا جانا چاہیے کہ یہ ناکامی صرف ایک تجربہ ہے، منزل کا تعین نہیں۔ ہمیں اُن کی آنکھوں میں نئے خواب بونے ہیں اور اُنھیں متبادل راستوں پر گام زن ہونے کی ترغیب دینی ہے۔
ایک قوم کی حقیقی ترقی اُس وقت ہوتی ہے، جب وہ اپنے تمام باصلاحیت نوجوانوں کو، چاہے وہ کسی بھی میدان میں ہوں، ترقی کے یک ساں مواقع فراہم کرے۔
آئیے، اپنے تعلیمی نظام کو صرف ٹیسٹنگ مشین کے بہ جائے ایک راہ نمائی کا مرکز بنائیں، جہاں ہر خواب کو پرواز کا موقع ملے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے