اقدار کا زوال یا زمانے کی تبدیلی؟

Blogger Sajid Aman

فضل رازق شہاب صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ایک تحریر اپنی فیس بک وال پر دی تھی، جس میں لکھا تھا:
مَیں نہیں جانتا کہ یہ الفاظ کس نے لکھے ہیں، اگر وقت ہو، تو پڑھ لیں۔
مرد کے کپڑوں میں عورت کی صفائی جھلکتی ہے۔ عورت کے لباس میں مردانگی دکھائی دیتی ہے۔ لڑکیوں کے لباس میں ماں کے اخلاق نظر آتے ہیں۔
ہم محبت، رواداری، وفاداری اور احترام جیسی اقدار پر پلی نسل ہیں۔ ہم اُن مردوں اور عورتوں کے درمیان رہے، جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، مگر تعلقات اور احترام میں ماہر تھے۔ اُنھوں نے ادب نہیں پڑھا، مگر ہمیں ادب سکھایا۔ فطرت اور حیاتیات کا مطالعہ نہیں کیا، مگر شایستگی سکھائی۔ رشتوں کی کتاب نہیں پڑھی، مگر اچھا سلوک اور احترام سکھایا۔ مذہب کی گہرائی میں نہیں اُترے ، مگر ایمان کا مفہوم سکھایا۔ منصوبہ بندی نہیں سیکھی، مگر دور اندیشی کا درس دیا۔
ہم وہ نسل ہیں، جو گھر میں اونچی آواز میں بات نہیں کرتی تھی۔ بجلی بند ہونے پر صحن میں سو جاتی تھی۔ ایک دوسرے سے بات کرتی تھی، مگر ایک دوسرے کے بارے میں نہیں۔
میری محبت اور تعریف اُن لوگوں کے لیے ہے، جنھوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ والدین، اُستاد، محلے دار، رفاقت اور دوستی…… سب کی عزت ہوتی ہے۔ ہم ساتویں پڑوسی تک کا احترام کرتے تھے۔ بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ اخراجات اور راز بانٹتے تھے۔
اُن لوگوں کے لیے دعا ہے، جنھوں نے وہ خوب صورت لمحے جِیے۔ اس نسل کے لیے بھی، جس نے ہمیں پروان چڑھایا۔ جو زندہ ہیں، اللہ اُنھیں صحت و حفاظت دے۔ جو رخصت ہو گئے، اُنھیں مغفرت نصیب ہو، آمین!
قارئین! مَیں نے اُنھی دنوں فضل رازق شہابؔ صاحب کی مذکورہ بالا سطور کے جواب میں لکھا:
بہت خوب، سر!
زندگی نے ہمیں مادی دنیا کے بیچ لا کھڑا کیا ہے۔ اَب وہ سب باتیں، جن کا آپ نے ذکر کیا، صرف حروف میں باقی ہیں۔ اختلاف کوئی نہیں کرے گا۔ بہترین مقرر، ادیب اور دانش ور بھی تائید کریں گے، مگر سب زبانی حد تک۔
کارپوریٹ دنیا میں اخلاقیات، روحانیت اور سماجیات اگر مفاد سے ٹکرائیں، تو جیت ہمیشہ مادیت کی ہوتی ہے۔ دلیل یا جذبات کسی کو بدل نہیں سکتے۔
فارغ وقت میں لفاظی ہمارا مشغلہ ہے…… بولنے میں، لکھنے میں۔ گفت گو بے معنی سہی، مگر عمل ہمیشہ کارپوریٹ کلچر کے مطابق ہوتا ہے۔ وقت نے ہر لفظ کے معنی، ہر احساس کی قدر بدل دی ہے۔
ہم پچھلی نسل کے لوگ اِسے بدقسمتی کہتے ہیں۔ نئی نسل ہماری باتوں پر سر ہلا دیتی ہے، مگر دل میں اُکتاہٹ ہوتی ہے۔ وہ ہماری دانش وری سے بور نہیں ہونا چاہتی۔
ایک کم آرام دہ، مگر اچھی دنیا سے نکل کر ہم ایک آرام دہ، مگر بری دنیا میں داخل ہوچکے ہیں۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ وقت کا پہیا پیچھے موڑیں یا آگے بڑھائیں……!
ہم خود بھی اُلجھن میں ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے بچوں کو کیسے متاثر کریں؟ یہ فکرہمیشہ کھانے کو دوڑتی ہے۔
اس وقت راجندر سنگھ بیدی کے مضمون ’’چلتے پھرتے لوگ‘‘ کا ایک حصہ یاد آرہا ہے…… جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے: میرے پاس کچھ نہیں، جس سے میں بیٹے کو عاق کر سکوں، مگر ڈرتا ہوں کہ وہ اپنے درخشندہ مستقبل سے مجھے عاق نہ کر دے۔ اس لیے جب مَیں ناراض ہو کر گھر سے نکلتا ہوں، تو خود ہی لوٹ آتا ہوں۔ اور جب وہ ناراض ہو کر نکلتا ہے، تو مَیں اُسے ڈھونڈ کر گھر لے آتا ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے