گریٹر اسرائیل بہ مقابلہ گریٹر مسلم وژن

Blogger Muhammad Ishaq Zahid from Swat

تاریخ گواہ ہے کہ خواب وہی پورے ہوتے ہیں، جو مستقل مزاجی، نظریاتی وابستگی اور عملی حکمت عملی کے ساتھ دیکھے جائیں۔ یہ اُصول صرف افراد پر نہیں، بل کہ اقوام پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا منصوبہ یا خواب، جو بہ ظاہر ایک افسانوی، مذہبی یا سیاسی نعرہ لگتا تھا …… آج کی دنیا میں مختلف شکلوں میں حقیقت کا روپ دھارتا دکھائی دے رہا ہے۔ اور کیوں نہ ہو…… جب ایک قوم نے اپنی توجہ محلات پر مرکوز رکھی، نہ دنیاوی عیش و عشرت میں مگن ہوئی، بل کہ نسلوں سے ایک نظریہ لے کر مشن پر گام زن رہی، تو نتیجہ تو ظاہر سی بات ہے کہ نکلنا ہی تھا۔
’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا تصور تورات، تلمود، اور یہودی صیہونی نظریات میں ملتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے وہ ارضِ مقدس جو دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک پھیلی ہوئی ہے، یعنی موجودہ مصر،ا ردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب کے کچھ حصے بھی اس میں شامل ہیں۔ یہ تصور صرف مذہبی روایت تک محدود نہیں رہا، بل کہ اب سیاسی ایجنڈے میں ڈھل کر اسرائیلی پالیسیوں کا حصہ بن چکا ہے۔
اسرائیل نے اپنے بچوں کو شروع دن سے ایک مخصوص بیانیہ دیا: ’’یہ زمین ہماری ہے اور ہمیں اسے لینا ہے ، چاہے جو بھی قیمت ہو۔‘‘
یہ نظریاتی تربیت ہر نسل کو ایک ’’مشن‘‘ کا سپاہی بناتی ہے۔
اسرائیل نے عسکری طاقت کے ساتھ ساتھ سفارت کاری میں بھی مہارت دکھائی۔ امریکہ، یورپ اور اقوامِ متحدہ میں اثر و رسوخ، جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور میڈیا کے استعمال نے اسے عالمی سطح پر ایک مضبوط حیثیت دی۔
٭ مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنا:۔ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اسرائیل نے بہ خوبی اپنائی۔ عرب ممالک کو ایک دوسرے سے لڑوانا، اندرونی بغاوتوں کی حمایت کرنا اور اسلامی بلاک کو منتشر رکھنا سب اس خواب کی تعبیر کے مراحل تھے۔
فلسطینیوں کی جدوجہد کو ’’دہشت گردی‘‘ کے فریم میں پیش کرنا اور عالمی میڈیا میں بیانیہ قابو رکھنا، اسرائیل کی بڑی کام یابی رہی۔ مقبوضہ بیت المقدس پر تسلط، نئی یہودی آبادکاری اور غزہ پر بار بار حملے اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔
اسرائیل کے خواب کی تعبیر میں اگر کسی کا سب سے زیادہ کردار ہے، تو وہ اسلامی دنیا کی غفلت، تفرقہ بازی اور دنیا پرستی ہے۔ جیسے کہ
٭ نظریاتی زوال:۔مسلم امہ نے ایک نظریہ چھوڑ کر قوم پرستی اور مفادات کی راہ اپنائی۔
٭ اقتصادی غلامی:۔ تیل کی دولت کے باوجود معاشی، تعلیمی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پس ماندگی مسلم امہ کا مقدر بنی۔
٭ سیاسی انتشار:۔ عرب اسپرنگ، خانہ جنگیاں، اور فرقہ وارانہ لڑائیاں اسرائیلی ایجنڈے کے لیے راستہ ہم وار کرتی رہیں۔
٭ معاشی اثر:۔ آج اسرائیلی اسٹارٹ اپس، ٹیکنالوجی اور دفاعی نظام دنیا بھر میں فروخت ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں اثر و رسوخ کا یہ حال ہے کہ اسرائیل کے خلاف قراردادیں اکثر ’’ویٹو‘‘ ہو جاتی ہیں، یا کم زور الفاظ میں بیان کی جاتی ہیں۔
گریٹر اسرائیل کا خواب ایک قدم، ایک قدم کر کے شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے اور ہم مسلمان بٹے ہوئے، الجھے ہوئے اور مفادات کے غلام، محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے نظریے پر ڈٹ گئی، آج کام یابی کی طرف بڑھ رہی ہے…… اور ہم، جن کے پاس آخری کتاب، سب سے کامل نظام اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے، خوابِ غفلت میں پڑے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ امت مسلمہ ایک نئے فکری انقلاب کی طرف بڑھے ۔ صرف مظلومیت کے نعرے کافی نہیں۔ ہمیں نظریاتی بیداری، تعلیمی و سائنسی ترقی،سیاسی وحدت اورمیڈیا کی طاقت کا ادراک کرنا ہوگا۔
گریٹر اسرائیل کے خواب کو اگر روکنا ہے، تو ’’گریٹر مسلم وِژن‘‘ کو بیدار کرنا ہوگا۔ ورنہ وقت ہمیں تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دے گا، جہاں صرف وہی قومیں جاتی ہیں، جو اپنی پہچان کھو دیتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے