(زیرِ نظر تحریر دراصل ’’ہیومش سٹیفن ڈی بریٹن-گارڈن‘‘ (Hamish de Bretton-Gordon) کی ایک انگریزی تحریر "Putin is boiling the British frog. We are at hybrid war with Russia” کا ترجمہ ہے۔ موصوف برطانیہ کے معروف مبصر اور کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے ماہر ہیں، نیز سابقہ برطانوی فوجی افسر بھی ہیں۔ ’’بی بی سی‘‘، ’’اے بی سی‘‘ اور ’’دی گارڈین‘‘ کے لیے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر منفرد اور معتبر تجزیے پیش کرچکے ہیں، جب کہ ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کے لیے جنگی حکمت عملی پر بصیرت افروز تبصرے کرچکے ہیں۔)
برطانوی خفیہ ادارے ’’ایم آئی فائیو‘‘ (MI5) کی سابق سربراہ ’’میننگہم بُلر‘‘ (Manningham-Buller) کا کہنا ہے کہ ہم پہلے ہی روس کے ساتھ ایک ’’ہائبرڈ وار‘‘ (Hybrid War) میں مبتلا ہیں۔ اس ہفتے لندن میں ہونے والی عالمی سائبر سیکورٹی کانفرنس کے بیش تر شرکا اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے نازک پس منظر میں وزارتِ خزانہ کا یہ رویہ کہ دفاعی بجٹ کو محض متوازن رکھا جائے، بہ جائے اس کے کہ فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے، قومی جرم سے کم نہیں…… مگر باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ یہی ہونے جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لیبر پارٹی نے ابتدائی دنوں کے مُثبت اعلانات کے بعد دفاع کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اپنی توانائیاں اندرونی کش مہ کش اور اصلاحات پر صرف کر رہی ہے، اس حقیقت کو فراموش کرتے ہوئے کہ اصل دشمن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
’’لیڈی میننگہم بُلر‘‘ یاد دلاتی ہیں کہ تقریباً 20 برس قبل ولادیمیر پوتن نے لندن میں ’’الیگزینڈر لٹوی نینکو‘‘ (Alexander Litvenenko) کے قتل کا حکم دیا تھا، اور حالیہ برسوں میں سلیسبری (Salisbury) میں ’’سرگئی سکرپل‘‘ (Sergei Skripal) کے قتل کی کوشش بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی کم نمایاں مگر خطرناک واقعات پیش آ چکے ہیں۔
برطانیہ کو ہلا دینے والے کئی بڑے سائبر حملوں میں روسی مداخلت کے شواہد پائے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ حالیہ دنوں میں اہم قومی تنصیبات پر ہونے والی پُراَسرار آتش زدگیوں کے تانے بانے بھی روس سے ملائے جاتے ہیں۔ کوئی یہ سن کر حیران نہیں ہوگا کہ یورپ بھر میں بڑھتی ہوئی غیر قانونی ہجرت کے پیچھے بھی کریملن (Kremlin) سے جڑے جرائم پیشہ نیٹ ورک سرگرم ہوں۔ (’’کریملن‘‘ اکثر روس کی حکومت، صدر یا سیاسی طاقت کے لیے بہ طور استعاراتی لفظ استعمال ہوتا ہے، ٹھیک ویسے جیسے ’’واشنگٹن‘‘سے امریکی انتظامیہ مراد لی جاتی ہے، مترجم)
صرف اتوار کے دن ہی مزید ایک ہزار غیر قانونی تارکین برطانیہ پہنچے اور حکومت بے بسی سے ہاتھ ملتی رہ گئی۔ یہ سب کچھ بلاشبہ پوتن کے لیے باعثِ مسرت ہوگا، جو ہماری بکھرتی ہوئی سوسائٹی اور کم زور پڑتی ہوئی ریاستی مشینری کو تمسخر سے دیکھ رہا ہے۔
کم از کم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ کو اس قدر جھنجھوڑا کہ وہ بہ ظاہر اپنی دفاعی ذمے داریاں قبول کرنے پر تیار ہوا۔ ’’سَر کیئر سٹارمر‘‘ (Sir Keir Starmer) نے بھی ابتدائی دنوں میں دعوا کیا تھا کہ دفاعی بجٹ بڑھایا جائے گا اور 2035ء تک اسے قومی پیداوار کے 5 فی صد تک پہنچا دیا جائے گا…… مگر اُس میں بھی 1.5 فی صد ’’غیر فوجی انفراسٹرکچر‘‘ پر خرچ کیا جاسکتا ہے، جو پلوں سے لے کر انٹرنیٹ تک کسی بھی چیز پر محیط ہو سکتا ہے۔ باقی 3.5 فی صد میں بھی لازمی نہیں کہ فوجی افرادی قوت یا ہتھیار شامل ہوں۔
اور یہ ابہام برقرار ہے کہ موجودہ 2 فی صد سے ذرا کچھ اوپر کی سطح کب تک حقیقتاً بڑھے گی؟ کیوں کہ اس میں تو پہلے ہی پنشن شامل ہیں۔
یہ غالباً ’’اُونٹ کے منھ میں زیرہ‘‘ کے مصداق ہوگا، جب وزارتِ خزانہ محض حسابی ہیر پھیر کے ذریعے دفاعی اخراجات کے اعداد خوش نما دکھانے کی کوشش کرے گی، مگر نئے فوجی دستے یا ٹینک فراہم کرنے سے گریز کرے گی۔ یہ چال کسی کو بے وقوف نہیں بنا رہی، بالخصوص پوتن کو تو ہرگز نہیں۔
حالیہ اسٹریٹجک ڈیفنس ریویو بہ جا طور پر کہتا ہے کہ ہمیں اپنی ’’مہلک صلاحیت‘‘ بڑھانی ہوگی، خصوصاً ڈرونز کے ذریعے…… لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روایتی جنگی طاقت کی اہمیت اب بھی باقی ہے۔ توپ خانہ اور اس کے گولے آج بھی یوکرین کی سرزمین پر فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں ’’سپیشل آپریشنز ایگزیکٹو‘‘ (Special Operations Executive) جیسی غیر روایتی فورسز کا ماڈل بھی موجود ہے، جنھوں نے اُس وقت کے آمر کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔ یہی طریقہ آج روس کے خلاف بھی کم خرچ اور زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ یوکرین کے روس کے اندر گہرے حملے اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ہمیں نہ صرف اُن کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ اس صلاحیت کو مزید بڑھائیں، بل کہ ہمیں بھی یہ صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ وزیرِاعظم عوام سے کھل کر کہیں:ہم پہلے ہی روس کے ساتھ ایک ہائبرڈ جنگ میں ہیں اور یہ جنگ ہم ہارنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ ہمیں زیادہ مضبوط اور زیادہ حوصلہ مندبننا ہوگا۔ ہمیں اپنے اُن سپاہیوں اور اداروں کو وسائل دینا ہوں گے، جو روس کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ بھی آج ہی، 10 برس بعد نہیں۔ کیوں کہ پوتن آج ہمارے طرزِ زندگی کو بہ راہِ راست نشانہ بنا رہا ہے۔
اگر ہم نے اِن خطرات کو شکست نہ دی، تو وہ تمام مسائل، جو آج ہمیں الجھا رہے ہیں، بے معنی ہو جائیں گے۔ پوتن کا کوئی ’’آف بٹن‘‘ نہیں، وہ ٹھنڈے دل اور حسابی ذہن کے ساتھ برطانیہ کو آہستہ آہستہ اُبال رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی آنکھیں اندرونی سیاست، فلاحی منصوبوں، ہجرت اور ٹیکسوں کی بحث سے اوپر اٹھائے اور بروقت دفاع پر توجہ دے…… اس سے پہلے کہ وقت ریت کی طرح ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










