حال ہی میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے اجتماعی اذانیں دینے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ کچھ افراد نے اسے اخلاص کی علامت قرار دیا، تو کچھ نے اسے جذباتی ردِ عمل اور بے عملی کی انتہا سے تعبیر کیا۔ یہ مناظر دیکھ کر ایک بار پھر ذہن میں وہ بنیادی سوال اُبھرتا ہے، جو ہماری قومی نفسیات اور سیاسی مزاج کو بے نقاب کرتا ہے: ’’کیا کوئی سیاسی یا انقلابی تحریک محض اذانوں سے کام یاب ہوسکتی ہے؟‘‘
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب عمل اور تدبیر کا وقت ہوتا ہے، تو ہم غفلت، جذبات یا توہمات میں کھوئے رہتے ہیں اور جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے، تو ہم آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا لیتے ہیں۔ دعا کو عمل کا نعم البدل سمجھنا دراصل اس فکری جمود کی عکاسی ہے، جو ہماری اجتماعی سوچ پر چھایا ہوا ہے ۔یہ طرزِفکر صرف سیاسی تحریکوں کے لیے ہی نہیں، بل کہ پوری قوم کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی حقیقی انقلاب صرف نعروں، رسومات یا جذباتی تقاریر سے کام یاب نہیں ہوا۔ فرانس کا انقلاب ہو یا روس کی بالشویک تحریک، برصغیر کی آزادی ہو یا ترکی کا جدید جمہوری سفر، ہر جد و جہد کے پیچھے منظم حکمتِ عملی، قربانی، سیاسی شعور اور دیرپا مزاحمت موجود تھی۔
اذان دینا عبادت ہے…… لیکن جب یہ اعمال کسی سنجیدہ سیاسی عمل کے بغیر انجام دیے جائیں، تو یہ صرف تسلی کا سامان بن جاتے ہیں، تبدیلی کا ذریعہ نہیں۔ یہ رویہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے سیاست کو ایک سنجیدہ، ادارہ جاتی جد و جہد کے بہ جائے ایک مذہبی رسوماتی کھیل بنا دیا ہے۔ تحریکِ انصاف جیسی بڑی سیاسی جماعت کے کارکن جب سیاسی اور قانونی میدان میں کردار ادا کرنے کے بہ جائے محض روحانی توکل پر تکیہ کریں، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سیاسی پختگی کے بہ جائے جذباتی وابستگیوں کے اسیر ہیں۔
راہ نماؤں کی رہائی ہو یا نظام کی تبدیلی، اس کے لیے آئینی چارہ جوئی، قانونی دلائل، عوامی بیداری، میڈیا پر بیانیہ کی جنگ اور عدالتی فورموں پر موثر نمایندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ سب نہ ہو، تو اجتماعی اذانیں محض علامتی ردعمل بن کر رہ جاتی ہیں۔
دعاؤں کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی تقدیر صرف دعاؤں سے نہیں بدلی، جب تک کہ دعاؤں کے ساتھ عملی جد و جہد، دانش مندی اور اجتماعی شعور نہ ہو۔
جب ہم ہر مسئلے کے بعد ’’اللہ خیر کرے گا‘‘ کَہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتے ہیں، تو دراصل ہم اللہ کی سنت کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں، جو محنت، قربانی اور سعی کے بغیر کسی کو کام یابی نہیں دیتی۔
سیاسی یا انقلابی جد و جہد کی کام یابی صرف تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ہوسکتی ہے:
٭ عوامی شعور۔
٭ منظم اور سنجیدہ جد و جہد۔
٭ بروقت اور باہمت فیصلہ سازی۔
اگر ان میں سے کوئی ایک ستون بھی کم زور ہو، تو پھر خواہ وہ اجتماعی اذانیں ہوں یا لاکھوں کا دھرنا…… وہ تحریک صرف وقتی جوش و خروش بن کر رہ جائے گی، جس کا نتیجہ مایوسی اور مایوس کن واپسی ہوتا ہے۔
یہ وقت جذبات کے سیلاب میں بہہ جانے کا نہیں، بل کہ سنجیدہ، منظم اور باشعور سیاسی عمل کا ہے۔ اگر کسی جماعت کو واقعی اپنے راہ نما سے محبت ہے، اگر کسی تحریک کو واقعی تبدیلی کی خواہش ہے، تو پھر اُسے سڑکوں، عدالتوں، پارلیمان اور میڈیا کے میدان میں حکمتِ عملی کے ساتھ اُترنا ہوگا۔ جب قوم یہ سمجھ لے گی کہ دعا کے ساتھ عمل بھی فرض ہے، تو تبھی حقیقی تبدیلی ممکن ہو سکے گی۔
ورنہ توہمات، رسومات اور وقتی جذبات صرف تسلی دیتے ہیں، تبدیلی نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










