ریاستی نظام کا المیہ

Blogger Sami Khan Torwali

پاکستانی ریاستی نظام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ادارے، جو دراصل عوامی خدمت اور قانون کی حکم رانی کے لیے بنائے گئے تھے، اب سیاسی مداخلت کے شکنجے میں جکڑ چکے ہیں۔ یہ مداخلت اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ ایک گریڈ 18اور ایک گریڈ 19 کا افسر بھی اپنی عزتِ نفس اور منصبی وقار کو قربان کرنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ منظر اس حقیقت کو مزید عیاں کرتا ہے کہ ایک مخصوص برسرِ اقتدار جماعت کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکنِ صوبائی اسمبلی کے گھر میں یہ دونوں افسران اتنے مودبانہ کھڑے تھے کہ دیکھنے والوں کو پرانے زمانے کے غلاموں کا منظر یاد آ گیا۔
یہ تصویر محض چند افراد کے رویے کی نہیں، بل کہ پورے نظام کے زوال کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک عوامی نمایندہ جو دراصل عوام کی خدمت اور مسائل کے حل کے لیے منتخب ہوتا ہے، وہ جب اپنی حیثیت کو ذاتی برتری اور تکبر کے اظہار کا ذریعہ بنالے، تو یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ دوسری جانب افسران، جو قانون کے محافظ اور عوام کے سہولت کار سمجھے جاتے ہیں، جب اپنی عزتِ نفس کے بہ جائے اپنی ملازمت بچانے کو ترجیح دیتے ہیں، تو پھر اداروں کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔
مَیں ان افسران کو الزام نہیں دیتا۔ وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے ایسا رویہ اختیار نہ کیا، تو اُن کی پوسٹنگ تو کیا، نوکری بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اثررسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ افسران کے تبادلے ، ترقی اور حتیٰ کہ ملازمت کے فیصلے بھی اکثر سیاسی خوش نودی کے تابع ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افسران اپنی اصل ذمے داریوں کے بہ جائے طاقت ور نمایندوں کے آگے جھکنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
دل چسپ پہلو یہ ہے کہ جس موقع پر یہ سب کچھ ہوا، اُس کا پس منظر غالباً یہ تھا کہ موصوفہ حال ہی میں عمرے کی سعادت حاصل کر کے واپس آئی تھیں اور افسران اُن کے گھر مبارک باد دینے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا افسران کا اصل فرض عوامی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے، یا عوامی نمایندوں کو ذاتی طور پر خوش کرنا؟ عبادت کا مقصد عاجزی اور انکسار ہے، لیکن اگر اس کے نتیجے میں لوگوں سے غلامانہ رویے کی توقع کی جائے، تو یہ دین اور سیاست دونوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
یہ واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر ہمارا نظام کس سمت جا رہا ہے؟ جب اداروں میں میرٹ، قانون اور اُصولوں کی جگہ خوشامد، چاپلوسی اور سیاسی دباو لے لیں، تو پھر ادارے کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔ عوام کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور ایک ایسا غلامانہ کلچر پروان چڑھتا ہے، جو نہ ملک کو ترقی دیتا ہے اور نہ عوامی مسائل ہی حل کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی نمایندے اداروں کو ذاتی جاگیر سمجھنے کی روش ترک کریں اور افسران کو بھی اپنی ذمے داریوں میں پیشہ ورانہ وقار قائم رکھنے کی ہمت پیدا کرنی چاہیے۔ اگر اداروں کی خود مختاری بہ حال نہ کی گئی، تو آنے والی نسلیں بھی اسی غلامانہ ماحول میں سانس لیں گی، جہاں عزت، اُصول اور انصاف کا کوئی تصور باقی نہ رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے