’’چین کسی بھی بدمعاش سے دبنے والا نہیں‘‘

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

(برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ کے 4 ستمبر 2025ء کے اداریے کا ترجمہ)
بدھ (3 ستمبر 2025ء) کی صبح بیجنگ کے باشندوں کو، جو تیانانمن سکوائر (Tiananmen Square) کے قریب رہتے تھے، ٹھنڈے ناشتے کے پیکٹ تھمایے گئے اور اُنھیں سختی سے ہدایت دی گئی کہ کھانا پکانے سے گریز کریں، مبادا چولھوں کا دھواں اُس عظیم فوجی پریڈ کے آسمان پر بادل بن جائے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی ایسے مظاہروں کے پیغام پر کسی طرح کی گرد نہ پڑنے دینے کے لیے غیرمعمولی جتن کرتی ہے۔ اس بار پیغام یہ تھا کہ شی جن پنگ عالمی نظام کو اپنی مرضی سے ایک نئے سانچے میں ڈھالنے جا رہے ہیں اور چین، اُن کے الفاظ میں، ’’ناقابلِ شکست‘‘ ہے۔
یہ پریڈ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے 80 برس مکمل ہونے کی یاد میں تھی۔ چین نے خود کو مشرق میں ’فتح کی فیصلہ کن قوت‘ کے طور پر پیش کیا اور آج بھی وہ خود کو ایسی ہی قوت گردانتا ہے۔ شی کے بقول: ’’انسانیت ایک بار پھر امن یا جنگ، مکالمہ یا تصادم، سب کے لیے فائدہ یا سب کے لیے خسارہ، کے انتخاب کے دہانے پر کھڑی ہے۔ چین کسی بھی بدمعاش سے دبنے والا نہیں۔‘‘
قوم پرستی اَب پارٹی کے داخلی بیانیے کا مرکز بن چکی ہے…… مگر بین الاقوامی ناظروں کے لیے اصل پیغام میزبانوں کی فہرست میں پنہاں تھا، جو چین کے ایٹمی و عسکری سازوسامان سے بھی زیادہ معنی خیز ثابت ہوئی۔ چینی صدر کے دائیں بائیں ولادیمیر پوتن اور کم جونگ اُن کی موجودگی، اور دیگر آمرانہ راہ نماؤں کا جھک کر آداب بجا لانا، کسی تصویری استعارے سے کم نہ تھا۔ سامعین تک یہ منظر ٹھیک اسی طرح پہنچا جیسا سوچا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جن کی خفگی شاید جون میں ہونے والی اپنی پھیکی مگر شورش زدہ پریڈ کی یاد سے مزید بڑھی ہو، نے اس مثلث پر امریکہ کے خلاف سازش کا الزام جھونک دیا…… مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر عالمی طاقت کے توازن میں تبدیلی کا محرک چین کا عروج ہے، تو اس میں سب سے زیادہ سہولت کار ٹرمپ خود ہیں؛ اپنی قوم کو تقسیم کرکے، اتحادیوں کو ڈرا دھمکا کر اور جنگِ عظیم دوم کے بعد قائم عالمی نظام پر یلغار کرکے۔ نئی دہلی کو کبھی بیجنگ کا توازن رکھنے والی قوت سمجھا جاتا تھا، مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں نریندر مودی کی شرکت، جو پریڈ سے عین پہلے چین کے لیے سفارتی فخر کا موقع بنی، دراصل ٹرمپ کی بھارت پر عائد تعزیری محصولات کا واضح جواب تھی۔ بہت سی حکومتوں کے لیے اَب چین زیادہ پیش گوئی کے قابل، اگرچہ زیادہ دوستانہ نہ سہی، کردار دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ ’’ابتری کے محور‘‘ کی اصطلاح گردش میں ہے ،مگر چین، روس اور شمالی کوریا کے راہ نماؤں کے تعلقات کو زیادہ بہتر طور پر ایک ’’ہم آہنگی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ان رشتوں میں حدود بھی ہیں اور تناو بھی، لیکن یہ انھیں پائیدار ہونے یا نقصان دہ ثابت ہونے سے نہیں روکتا۔ ماسکو نے یوکرین کی جنگ میں چینی سفارتی و معاشی تائید اور سازو سامان پر انحصار کیا ہے، مگر اسے ہتھیاروں اور فوجیوں کے لیے پیونگ یانگ (شمالی کوریا کا دار الحکومت) کا سہارا لینا پڑا۔ ٹرمپ کی شمالی کوریا کو لبھانے کی کوشش کے بعد شی نے کم کو گلے لگایا۔ اب وہ اسے قریب رکھے ہوئے ہیں، تاکہ پیونگ یانگ، ماسکو سے حد سے زیادہ قریب نہ ہوجائے۔
چین کی عسکری ترقی بھی آزمایشوں سے خالی نہیں۔ مئی میں پاک بھارت تصادم کے دوران میں پہلی بار ایک چینی لڑاکا طیارہ عملی جنگ میں آزمایا گیا…… مگر پیپلز لبریشن آرمی کو لڑائی دیکھے عشروں بیت چکے ہیں۔ اور حالیہ وسیع پیمانے کی تطہیر، جس میں وہ جرنیل بھی شامل ہیں جنھیں شی نے خود ترقی دی تھی، ظاہر کرتی ہے کہ وہ اب بھی بدعنوانی یا سیاسی وفاداری کے بارے میں فکر مند ہیں، یا شاید دونوں پر۔
بیجنگ کے ارادوں کے اظہار کو نظرانداز کرنا حماقت ہوگی، لیکن اسے حقیقت کا مترادف سمجھنا بھی نادانی ہوگی۔ مستقبل کی تحریر ابھی جاری ہے۔ ایشیا، یورپ اور دیگر خطوں کی حکومتوں کے فیصلے اب بھی باقی ہیں، اور وہ امریکی اقدامات سے اتنے ہی متاثر ہوں گے، جتنے چینی حکمت عملی سے۔ ٹرمپ کے گرد چین مخالف مشیر ضرور ہیں، لیکن تائیوان کو درپیش سب سے بڑا فوری خطرہ شاید یہ نہ ہو کہ چین کی عسکری خوداعتمادی شی کو امریکہ سے جنگ پر آمادہ کرے، بل کہ یہ کہ ٹرمپ کسی تجارتی سودے کے عوض اسے بیچ ڈالیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے