نج کاری کے سائے میں دم توڑتی تعلیم

Blogger Noor Muhammad Kanju

ابھی ہم تعلیم کے معیار، نصاب کی اصلاح، یا ٹیکنالوجی کے استعمال جیسے مباحث میں اُلجھے ہوئے تھے کہ ایک اور خطرناک بحث نے سر اُٹھالیا، ’’سرکاری تعلیمی اداروں کی نج کاری۔‘‘
گویا جن سکولوں میں غریب کا بچہ دو وقت کی روٹی کی قیمت پر پڑھنے آتا ہے، اَب وہاں بھی دولت کی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے۔ تعلیم کو کاروبار بنانے کی یہ روش نہ صرف افسوس ناک ہے، بل کہ ایک ایسے طبقے کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، جو پہلے ہی کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور محرومیوں کی چکی میں پس رہا ہے۔
سرکاری سکول غریب کی آخری اُمید ہیں۔ ان اداروں میں وہ والدین بھی اپنے بچوں کو داخل کرواسکتے ہیں، جن کے گھروں میں کتاب خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے، جنھیں روز اپنے بچوں کو جوتے پہنا کر سکول بھیجنا ایک ’’چیلنج‘‘ لگتا ہے۔ یہ وہ والدین ہیں، جو خود ناخواندہ ہوتے ہوئے بھی چاہتے ہیں کہ اُن کا بچہ قلم پکڑے، کتاب سے دوستی کرے اور اُس کے ہاتھ میں مزدوری کے اوزار کے بہ جائے خواب ہوں…… مگر جب تعلیم کی باگ ڈور نجی ہاتھوں میں دی جائے گی، تو سب سے پہلے انھی بچوں کو دروازے سے واپس لوٹایا جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے غیر معیاری ہیں، یہاں پڑھائی نہیں ہوتی، اساتذہ غیر حاضر ہوتے ہیں اور نتائج مایوس کن ہوتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ ان شکایات میں وزن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل ادارے بیچ دینا ہے، یا ان کی اصلاح کرنا؟
نج کاری ایک آسان راستہ ضرور ہے، مگر اس کے انجام خطرناک اور دیرپا ہوتے ہیں۔ یہ پالیسی وقتی طور پر حکومتی بوجھ کم کرسکتی ہے، لیکن طویل المدتی طور پر تعلیمی تفاوت میں ایسا اضافہ کرے گی، جسے نسلیں بھگتیں گی۔
آج سرکاری سکولوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ پورا سال داخلے جاری رہتے ہیں۔ سکول انتظامیہ کسی بھی وقت کسی بچے کو داخلہ دینے سے انکار نہیں کرتی۔ یہ لچک اس لیے ہے، کیوں کہ یہ ادارے عوامی خدمت کے جذبے سے چلتے ہیں۔ دوسری جانب پرائیویٹ ادارے ایک خاص تاریخ کے بعد داخلہ نہیں دیتے اور اگر دیں بھی، تو فیس، رجسٹریشن چارجز، داخلہ ٹیسٹ، انٹرویو اور دیگر تقاضے غریب والدین کے لیے ناقابلِ عبور دیوار بن جاتے ہیں۔
کلاس رومز میں طلبہ کی بھیڑ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گنجایش سے دوگنے بچے بٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک استاد درجنوں بچوں پر بہ یک وقت توجہ نہیں دے سکتا، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیم کا عمل رسمی رہ جاتا ہے۔ دوسری طرف اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ جب کوئی استاد ریٹائر ہوتا ہے، تو اُس کی جگہ لینے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ بھرتی کا عمل نہ صرف سست ہے، بل کہ بے حد پیچیدہ اور غیر شفاف بھی۔
جو نوجوان اساتذہ بھرتی ہوتے ہیں، اُن کی اکثریت تدریس کو عارضی روزگار سمجھتی ہے۔ جیسے ہی اُنھیں بیرونِ ملک یا کسی اور شعبے میں موقع ملتا ہے، وہ ملازمت چھوڑ کر چل نکلتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ طلبہ ایک غیر مستقل، غیر دل چسپ اور غیر تربیت یافتہ نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں ایسی وابستگی درکار ہے، جو صرف نوکری کے لیے نہیں، بل کہ قوم کی تعمیر کے جذبے سے سرشار ہو۔
ادھر نصاب کی حالت یہ ہے کہ بچوں پر کتابوں اور مضامین کا ایسا بے ہنگم بوجھ لاد دیا گیا ہے کہ وہ رٹے لگانے پر مجبور ہیں۔ ان کی ذہنی نشو و نما، تخلیقی سوچ اور تجزیاتی صلاحیتیں دب کر رہ گئی ہیں۔ والدین کی اکثریت اپنی معاشی مصروفیات میں اتنی اُلجھی ہوتی ہے کہ اُنھیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کا بچہ اسکول گیا بھی ہے یا نہیں؟
حکومت کی طرف سے مفت کتابوں کا جو ڈھول پیٹا جاتا ہے، وہ اکثر یا تو جزوی طور پر پورا ہوتا ہے، یا سال کے کئی مہینے بعد کتابیں مہیا کی جاتی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ درسی کتب پر سبسڈی دی جائے اور انھیں کھلی مارکیٹ میں سستے داموں ہر کسی کی دسترس میں لایا جائے ۔
دیہی علاقوں میں صورتِ حال اور بھی تشویش ناک ہے۔ کئی سکول بغیر عمارت، بغیر بجلی، بغیر پانی اور بغیر ٹوائلٹ کے کام کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کے لیے علاحدہ کلاسیں، خواتین اساتذہ اور محفوظ ماحول کی عدم دست یابی تعلیم میں صنفی تفریق کو جنم دے رہی ہے۔ نج کاری ان مسائل کا حل نہیں، بل کہ ان میں مزید اضافہ کرے گی۔
نج کاری کے حق میں دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے تعلیم کا معیار بہتر ہوگا…… لیکن یہ صرف اُن لوگوں کے لیے سچ ہے، جو پہلے ہی فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ غریب کے لیے یہ اصلاح نہیں، سزا ہے۔ تعلیم کو صرف امیروں کے لیے مخصوص کر دینا ایک ایسی اجتماعی غلطی ہوگی، جس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑیں گے۔
تعلیم کو بچانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ نج کاری کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے، اساتذہ کی بھرتی کو موثر بنائے، بنیادی سہولیات کو یقینی بنائے اور اس پورے نظام میں شفافیت، جواب دہی اور سنجیدگی لائے۔ اگر ہم نے تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا، تو وہ بچے جن کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے، وہ کل کو یا تو چائے بیچ رہے ہوں گے یا بے روزگاری کی دلدل میں ڈوبے ہوں گے۔
یہ فیصلہ اب حکومت نے کرنا ہے کہ وہ تعلیم کو محفوظ بنانا چاہتی ہے، یا اسے منڈی کی منافع بخش شے بنا کر صرف طاقت ور طبقات کے حوالے کرنا چاہتی ہے……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے