سیلاب کی وجوہات اور ذمے دار ادارے

Blogger Tauseef Ahmad Khan

ماضی کی طرح ایک بار پھر خیبر پختونخوا شدید سیلابی صورتِ حال سے دوچار ہوا، جس کے نتیجے میں نہ صرف مالی، بل کہ قیمتی جانوں کا بھی بہت زیادہ ضیاع ہوا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سال مون سون کے موسم میں ہمیں یہی المیہ دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن ہم ان آفات کی بنیادی وجوہات پر غور کرتے ہیں اور نہ کوئی جامع حکمتِ عملی ہی اپناتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سائنسی شعور کا فقدان ہے۔ ہم لاشعوری طور پر ہر ناخوش گوار واقعے کو ’’عذاب‘‘ سے جوڑ دیتے ہیں، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے بھی اس دنیا میں ایسے قدرتی ارضی مظاہر رونما ہوئے تھے، جنھوں پوری زمین کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اور جنھوں نے لاکھوں جان داروں کی نسلیں صفحۂ ہستی سے مٹا دی تھیں۔ ایسے واقعات کو ’’اجتماعی انقراض‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُس وقت انسان موجود تھا، نہ کوئی انسانی عمل۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں ہم سے کہیں زیادہ شدید سیلاب آتے ہیں۔ وہاں پورے کے پورے گاؤں تباہ ہو جاتے ہیں، مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن جانی نقصان شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کے لوگوں میں سائنسی شعور اور وقت سے پہلے کی منصوبہ بندی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنسی علم کے ذریعے آپ کسی قدرتی آفت کو ٹال تو نہیں سکتے، مگر اس کے نقصانات کو کم سے کم ضرور کرسکتے ہیں۔
جدید سائنسی شعبے جیسے کہ علمِ موسمیات، علمِ ماحولیات، ہائیڈرولوجی اور سیٹیلائٹ ریموٹ سینسنگ کے ذریعے ہم نہ صرف بروقت پیش گوئی کرسکتے ہیں، بل کہ ایک مربوط حکمتِ عملی بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔
ان علوم کی بہ دولت موجودہ سیلابی صورتِ حال کی پیش گوئی کئی ہفتے پہلے مختلف طریقوں سے کی جا سکتی تھی اور اس کے مطابق بھرپور تیاری بھی کی جاسکتی تھی۔ مثال کے طور پر مون سون کا سسٹم پہلے ہی سے فعال تھا۔ 13 اگست کو مغربی ہوائیں سوات اور نشیبی علاقوں میں داخل ہوچکی تھیں۔ دونوں کا ملاپ واضح طور پر شدید سیلابی صورتِ حال کو جنم دے رہا تھا۔ حتیٰ کہ 14 اگست کو پہلا ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ جامبل کے پہاڑوں میں دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد موسمی حالات کی سنگینی بالکل واضح تھی، لیکن افسوس کہ اداروں میں موجود ذمے دار افراد نے کوئی عملی قدم نہ اُٹھایا۔ قومی و صوبائی ادارہ برائے آفاتِ قدرتی انتظام (این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے) کی ذمے داری تھی کہ موسم کی اس سنگین کیفیت کی بنیاد پر ہنگامی منصوبہ بندی کرتے اور عوام کو سیلابی خطرات سے بروقت خبردار کر دیتے…… لیکن بدقسمتی سے ان اداروں کی کارکردگی صرف کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہتی ہے۔ کوئی مربوط حکمتِ عملی بنائی جاتی ہے، نہ عوامی آگاہی مہم چلائی جاتی ہے اور نہ دیہات اور پہاڑی علاقوں تک بروقت اطلاع ہی پہنچائی جاتی ہے۔ افسوس کہ ریٹائرڈ فوجی افسران، بیوروکریٹس اور سفارش پر بھرتی شدہ افراد کا عوامی فلاح سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اربوں روپے یہ ادارے ہڑپ کر جاتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اداروں کے اخراجات کی تفصیل شفاف طور پر کہیں بھی دست یاب نہیں۔ سالانہ بجٹ کے علاوہ عالمی بینک نے 106 لاکھ ڈالر پی ایم ڈی کے لیے اور 82 لاکھ ڈالر این ڈی ایم اے کے لیے مختص کیے تھے، لیکن ’’کارکردگی‘‘ صفر ہے ۔
دوسرا یہ کہ اس بار نہروں میں سیلابی ریلا غیر معمولی ضرور تھا، لیکن اتنا شدید بھی نہیں تھا، جتنا نقصان ہوا۔ اصل نقصان تو حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ ہم نے اس مسئلے کو محض ایک مذاق بنالیا ہے۔ ذمے دار اداروں میں بیٹھے افراد محض وقت گزاری میں مصروف ہیں۔ ہر سال سیلاب آتا ہے، نقصان ہوتا ہے، لوگ شور مچاتے ہیں، چند دن بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اگلے مون سون میں پھر وہی حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
مزید یہ کہ ہم نے لوئر اور مڈل سوات میں سیلابی تباہی تو دیکھی، لیکن خدا نہ خواستہ اگر یہی سسٹم اپر سوات میں فعال ہو جاتا ہے، تو تباہی کا وہ عالم ہوگا کہ اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ چوں کہ مغربی ہوائیں ستمبر کے آخر تک متحرک رہیں گی، اس لیے خطرہ اب بھی ٹلا نہیں۔ اس لیے اداروں سے گزارش ہے کہ اپر سوات میں بروقت حفاظتی اقدامات اپنائیں، تاکہ مزید جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے