پاکستان میں بہ ظاہر جمہوری نظام رائج ہے، مگر ہر انتخاب اپنے ساتھ تنازعات کا بوجھ لے کر آتا ہے، اور اپوزیشن اکثر بہ امرِ مجبوری اسے قبول کرلیتی ہے۔
ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ دھاندلی کا شور مچانے والوں نے نہ کوئی قابلِ اعتبار ثبوت پیش کیا اور نہ ریاستی اداروں، خصوصاً الیکشن کمیشن آف پاکستان، نے اس پر کوئی مؤثر کارروائی ہی کی۔ بعض ناکام اُمیدواروں نے الیکشن ٹریبونل اور عدالتوں کا در بھی کھٹکھٹایا، مگر یہ ادارے سماعتوں کو مؤخر کرتے رہے، یہاں تک کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرگئیں، گویا انصاف کے چہرے پر کالک مل دی گئی۔
ماضی کے انتخابات کی طرح 8 فروری 2024ء کا عام انتخاب بھی متنازع قرار پایا۔ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اسے دھاندلی زدہ قرار دیا۔ تحریکِ انصاف کا دعوا ہے کہ اصل جیتنے والے 17 اُمیدواروں کو اقتدار تک پہنچا دیا گیا اور آج بھی وہ اسے ’’فارم 47 کی حکومت‘‘ کَہ کر پکارتے ہیں۔ بالکل ویسے، جیسے ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، عمران خان کو ’’سلیکٹڈ وزیر اعظم‘‘ کہا کرتے تھے۔
اگر یہ الزامات محض سیاسی بیانات سمجھے جائیں، تو بھی کم از کم ایک بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت علی چھٹہ کی 17 فروری 2024ء کی وہ غیر معمولی پریس کانفرنس، جس میں اُنھوں نے کھلے عام اعتراف کیا کہ قومی انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی اور وہ خود بھی اس عمل کا حصہ رہے۔ اُن کے بہ قول یہ سب کچھ اعلا سطح کی ہدایات پر کیا گیا۔
اُنھوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ’’ہم نے 70، 70 ہزار ووٹوں سے جیتنے والوں کو ہروا دیا۔ اس لیے مجھے اور الیکشن کمشنر کو سرِعام پھانسی دی جائے۔
یہ بیان کسی عام شہری یا سیاسی کارکن کا نہیں، بل کہ ایک اعلا سرکاری افسر کا بہ راہِ راست اعترافِ جرم تھا۔ دنیا کے کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں ایسے اعترافات کے بعد فوری طور پر آزادانہ اور کھلی تحقیقات کی جاتیں۔ امریکہ میں 1972ء کے واٹر گیٹ اسکینڈل میں ایک معمولی ثبوت نے صدر نکسن سمیت پورے سیاسی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ برطانیہ میں 2009ء کے پارلیمانی اخراجات کے اسکینڈل میں درجنوں ارکانِ پارلیمنٹ کو تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی بھی فرد یا سرکاری اہل کار کے اعتراف کے بعد مکمل تحقیقات ہوں، عدالت یہ طے کرے کہ اعتراف کس حد تک درست اور قابلِ عمل ہے اور پسِ پردہ موجود کرداروں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے…… مگر جب کسی شخص کو عدالتی کارروائی کے بغیر ہی منظر سے غائب کر دیا جائے، تو یہ آئینی حق کی خلاف ورزی اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔
کمشنر راولپنڈی کے بیان کے بعد عدالتوں کو متحرک ہونا چاہیے تھا اور عوام کو بتایا جانا چاہیے تھا کہ دھاندلی کس نے، کس کے حکم پر اور کس مقصد کے لیے کی؟ مگر یہاں تو گنگا اُلٹی بہتی ہے۔ مقتدر حلقوں نے لیاقت علی چھٹہ کو عدالتی فورمز پر پیش کرنے کی بہ جائے یک سر غائب کر دیا اور میڈیا سے بھی دور رکھا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف شفافیت اور انصاف کے اُصولوں کے منافی ہے، بل کہ اس تاثر کو بھی تقویت دیتا ہے کہ شاید اصل مقصد جرم کو بے نقاب کرنے کی بہ جائے ’’چھپانا‘‘ ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اُنھیں منظر سے ہٹانے کی ممکنہ وجہ یہ تھی کہ انتخابات کے نتائج پر عوامی اعتماد مزید کم نہ ہو اور ریاستی اداروں کی ساکھ کو بچایا جاسکے…… مگر پاکستان پہلے ہی شفاف انتخابات اور ادارہ جاتی احتساب کے بحران میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے موقع پر ایک اہم گواہ کو عدالت میں پیش کرنے کی بہ جائے غائب کر دینا اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ سچائی کو دبانا ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد ریاستی اداروں سے اُٹھ چکا ہے ۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل ’’10 اے‘‘ ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل اور قانونی عمل کے ذریعے انصاف کا حق دیتا ہے، مگر ہمارے حکم ران کسی کو بھی یہ حق دینے پر آمادہ نہیں۔ یہ رویہ کسی قومی المیے سے کم نہیں۔
قارئین! آج تک کسی کو یہ علم نہیں کہ سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چھٹہ کہاں ہیں…… وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ حکومت اور ریاستی اداروں کا یہ طرزِ عمل، دراصل، انتخابی دھاندلی کے اعتراف کی توثیق کے مترادف ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










