شاہی محل قضیہ، جرگے کے فیصلے کا جائزہ

Blogger Tauseef Ahmad Khan

گذشتہ چند ہفتوں سے سوات کا شاہی خاندان، مئیر شاہد علی اور منسٹر فضل حکیم کے مابین ایک تنازع سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث ہے۔ اس پر نہ صرف عوام، بل کہ سیاسی شخصیات نے بھی بڑھ چڑھ کر اظہارِ خیال کیا۔ تاہم، میرے لیے یہ مسئلہ کسی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ کیوں کہ یہ کوئی قومی نوعیت کا مسئلہ نہیں، بل کہ دو فریقوں کے درمیان ایک ذاتی نوعیت کا معاملہ تھا۔
جب یہ تنازع طول پکڑ گیا، تو علاقے کے معزز مشران نے مداخلت کی اور جرگے کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ فریقین کی رضامندی سے اُن کے مختارِ خاص لیے گئے اور کئی دنوں کی مشاورت کے بعد جرگے نے ایک مفصل فیصلہ جاری کیا۔ یہ فیصلہ بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی شیئر ہوا، جو میری نظر سے گزرا۔
فیصلہ پڑھتے ہوئے ایک نکتہ میرے لیے باعثِ حیرت بنا کہ ایک غلط مفروضے کی بنیاد پر فیصلہ تحریر کیا گیا تھا۔ چوں کہ معاملہ کروڑوں روپے کی مالیت کا تھا، اس لیے ایسے اہم مالی تنازع میں فیصلے کو انتہائی باریکی اور مکمل غور و فکر کے ساتھ تحریر کیا جانا چاہیے تھا۔ کیوں کہ جلد بازی میں دیا گیا فیصلہ کسی بھی فریق کو مالی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ میرا کسی فریق سے ذاتی تعلق ہے، نہ مجھے جرگے کے فیصلے سے کوئی لینا دینا ہی ہے۔ میرا مقصد صرف ایک معاشی پہلو کو عقل و دلیل کی بنیاد پر عام لوگوں کو سمجھانا ہے، تاکہ قارئین میں اس حوالے سے شعور پیدا ہو۔
نکتے پر بات کرنے سے پہلے ہمیں ’’پراپرٹی‘‘ اور ’’رئیل اسٹیٹ‘‘ میں فرق اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو سمجھنا ہوگا۔
پراپرٹی دراصل ایک غیر منقولہ اثاثہ ہوتی ہے، جیسے کہ ’’خام زمین‘‘…… جب کہ رئیل اسٹیٹ اس زمین پر کی جانے والی تعمیرات اور ترقیاتی ڈھانچوں پر مشتمل ہوتی ہے…… جیسے گھر، دکانیں، سڑکیں یا دیگر تعمیراتی سرمایہ کاری۔ یوں رئیل اسٹیٹ ایک جامع اصطلاح ہے، جس میں زمین کے ساتھ جڑی تمام ترقی شامل ہوتی ہے۔
پراپرٹی یا رئیل اسٹیٹ کی قیمت میں اُتار چڑھاو کئی معاشی عوامل کی بنیاد پر ہوتا ہے، جن میں سب سے نمایاں شرحِ سود ہے۔ جب شرحِ سود زیادہ ہوتی ہے، تو لوگ اپنا سرمایہ زمین یا تعمیرات کی بہ جائے بینک میں رکھنا زیادہ فائدہ مند سمجھتے ہیں، لیکن جب شرحِ سود کم ہو، تو لوگ اپنا پیسا زیادہ تر کاروبار یا پراپرٹی میں لگاتے ہیں۔ اسی طرح کمرشلائزیشن، یعنی کسی علاقے میں معاشی سرگرمیوں، سڑکوں، بازاروں، اسکولوں اور اسپتالوں کی موجودگی، زمین کی قدر میں بہ راہِ راست اضافہ کرتی ہے۔
اب رئیل اسٹیٹ کا کسی حد تک تعلق ڈالر کے اُتار چڑھاو سے ہوسکتا ہے، کیوں کہ تعمیرات کے لیے کافی اشیا بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں…… لیکن یہ بات معاشی اُصولوں کے سراسر خلاف ہے کہ زمین کی قیمت کا تعین ڈالر کے اُتار چڑھاو کی بنیاد پر کیا جائے۔ زمین کوئی درآمدی شے نہیں، جس کی قیمت ڈالر سے جڑی ہو۔ یہ ایک مقامی اثاثہ ہے، جس کی قدر کا انحصار مقامی ترقی، طلب و رسد اور معاشی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، 2019ء میں ڈالر 163 روپے کا تھا اور آج 280 روپے تک پہنچ چکا ہے، تو کیا یہاں کی زمینوں کی قیمتوں میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے؟
حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے صرف درآمدی سامان مہنگا ہوتا ہے، جس سے تعمیراتی لاگت تو بڑھتی ہے، لیکن زمین بہ ذاتِ خود مہنگی نہیں ہو جاتی۔
جرگے کے فیصلے میں یہ دلیل دی گئی کہ زمین کی قیمت ڈالر کی قدر کے حساب سے طے کی گئی۔ کیوں کہ وقتِ خرید میں ڈالر سستا تھا اور آج مہنگا ہے، اس لیے زمین کی موجودہ قیمت بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ یہ بات نہ صرف معاشی طور پر غلط ہے، بل کہ منطقی طور پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔
اگر اس منطق کو مان لیا جائے، تو اگر کل کو ڈالر 400 روپے کا ہو جائے، تو کیا یہاں کی زمینوں کی قیمتیں بھی دُگنی ہو جائیں گی؟ یقینا ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ قیمتوں کا تعین ڈالر کی بنیاد پر نہیں، بل کہ زمین کی حقیقی اِفادیت، ترقی اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ سے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ شرعی طور پر یہ مفروضہ درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ایک طرف فیصلے میں فسخِ بیع کا ذکر ہے اور دوسری طرف زمین کی قیمت کو مقامی کرنسی کی بہ جائے ڈالر سے منسلک کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں زمین کی قیمت میں کافی اضافہ ہوگیا ہے، جو میرے علم کے مطابق سود (ربا) کے زمرے میں آتا ہے۔ کیوں کہ ’’فتاویٰ دارالعلوم دیوبند‘‘ میں درج ہے کہ ’’اگر بیع فسخ ہو جائے، تو فریقین پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا مال بغیر زیادتی کے واپس کریں۔ اگر قیمت میں اضافہ کرکے یا کسی دوسری کرنسی کے اُتار چڑھاو کو بنیاد بنا کر زائد رقم لی گئی، تو یہ ربا میں داخل ہے اور ناجائز ہے۔(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، جلد 9، صفحہ 350، باب: ردّ بیع و فسخ۔)
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مشتری بارہا عدالت اور سوشل میڈیا پر یہ پیش کش کر چکا تھا کہ وہ زمین کو موجودہ مارکیٹ ریٹ پر واپس دینے کو تیار ہے۔ ایسے میں جرگے کو چاہیے تھا کہ وہ فیصلہ تحریر کرتے وقت اس بات کو نظرانداز نہ کرتا۔
بہ ہرحال، یہ معاملہ اب فریقین کا ذاتی ہے اور وہ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ اسے کیسے حل کرنا ہے…… لیکن مجموعی طور پر ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ فیصلے کم علمی کی بنیاد پر نہیں، بل کہ شعور، منطق، قانون اور معاشی سمجھ بوجھ سے کیے جائیں۔
اگر فریقین آپس میں بات چیت سے مسئلہ حل نہ کرسکیں یا کوئی قابل بندہ موجود نہ ہو، جو دلیل سے معاملے کو حل کرے، تو عدالت بہترین فورم ہے، جہاں دلیل، ثبوت اور ہر قانونی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا جاتا ہے۔
عدالت میں ہر فریق کو سننے ، دلائل دینے اور شواہد پیش کرنے کا پورا موقع ملتا ہے…… اور فیصلہ کبھی جلد بازی میں نہیں، بل کہ مکمل غور و خوض کے بعد سنایا جاتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے