ناسٹلجیا

Blogger Sajid Aman

قارئین! ’’ناسٹلجیا‘‘ (Nostalgia) کا مطلب ہے ماضی کی یادوں میں کھو جانا، ماضی کی طرف ایک جذباتی لگاو یا ایک خواہش مند محبت جو ماضی کی طرف ہو۔
اس کیفیت میں اکثر ماضی کے خوش گوار لمحات یا مقامات کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کی طرف ایک گہرا تعلق محسوس ہوتا ہے۔
واقعی یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے اور جب یہ معمولاتِ زندگی پر اثر انداز ہونا شروع کرے، تو اس کا ماہرِ نفسیات سے علاج کیا جاتا ہے۔
’’لفظونہ ڈاٹ کام‘‘ (lafzuna.com) پر ’’نگار سوڈا واٹر‘‘ کے متعلق چھپنے والے مضمون کو کن اکھیوں سے دیکھتا اور سوچتا کہ وقت نکال کر پڑھوں گا۔ اس کیفیت میں ڈھلنے اور ڈھل کر اس تکلیف و اذیت سے گزرنے سے ڈر لگتا تھا۔ یہ وہ خوف ہے جو کئی سالوں سے مجھے جکڑے ہوئے ہے اور اسی ماضی پسندی میں حال اور ماضی کا مستقل تقابل میرے اندر جاری رہتا ہے۔
’’تریخ بوتل‘‘ (سوڈا)…… اس مضمون کو پڑھنے کے لیے میں موڈ کا انتظار کر رہا تھا۔ایک کیفیت جو مجھے کھینچ کر ماضی میں لے جاتی ہے۔ چشمِ تصور میں میرے سامنے سارے مناظر ہوتے ہیں۔ گرین چوک قدرے پُرسکون اور باوقار چوک تھا۔ ائیرپورٹ روڈ، بنڑ اسکول کے بعد مینگورہ سے لاتعلق ہوجاتا تھا، مگر نیو مدین روڈ اور گرین چوک سیاحوں کی موجودگی اور نیو روڈ کا آخری سرا درآمد شدہ چیزوں اور اسٹیٹس کے لیے لاثانی تھا۔
گرین اڈّا کا وقار، اس کی عمارت کا جادواپنی جگہ ایک عظیم یادداشت ہے۔ مینگورہ میں دو ہی زندہ چوک تھے: نشاط چوک اور گرین چوک۔
’’نگار سوڈا واٹر‘‘ سے سوڈا واٹر پینا اُس وقت ایک عیاشی تو ہوگی، مگر ’’تریخ سوڈا‘‘ معدے کے بوجھ، بدہضمی اور گیس کے لیے علاج کے طور پر استعمال اور تجویز کیا جاتا تھا۔
’’دَ ٹیکی بوتل‘‘ مینگروال تہذیب کا حصہ تھا۔ بچے پی سکتے تھے، نہ اُن کو پلایا ہی جاتا تھا، مگر بڑوں کے منھ، ناک، کانوں اور آنکھوں سے ’’تاو‘‘ نکال دیتا تھا۔ ایسا ہم بہت سنتے تھے۔
پیدل مارچ کرکے جانا، بوتلوں کے ٹکراو کی آوازیں اور اس میں ڈھکاروں کی خوشی…… کوئی منظرکشی نہیں کرپائے گا اُس پوائنٹ کا، جہاں فقط ایک بوتل، ایک ماہرِ معدہ و ماہرِ دماغی بوجھ کے طور پر ایک عرصہ کام آ رہی تھی۔
جہاں رشید ڈاکٹر صاحب مرحوم کا ’’نمبر دس شربت‘‘ بھی یہی کام کرتا تھا، تو علاج اور مستی کو یک جا کرنا پہلی ترجیح ہوتی۔
مسئلہ بڑی عمر کی خواتین کا تھا، جو ایک روپے کی دو تین ’’تریخ سوڈا‘‘ بوتلوں کی متمنی رہتیں اور منھ پھیر کر غٹاغٹ پی جاتیں۔ پھر سلسلہ وار ڈھکاروں کی شروعات پر شکر گزار ہوجاتیں۔
سوڈا واٹر کے ساتھ ایک عجیب رومانی تعلق بھی معاشرے کا حصہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اپنی بیوی کے ساتھ سرِعام، یعنی اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی گھر کے لوگوں کے سامنے ضرورت کے علاوہ بات چیت معیوب سمجھی جاتی تھی…… جب اپنے بچوں کو صرف کمرے ہی میں گود لینا بہت بڑی عیاشی تھی…… لوگوں کے سامنے پیار کرنا بے حیائی کا عمل گردانا جاتا۔
بزرگ اور بڑی عمر کی خواتین تو سوڈا واٹر منگوا بھی لیتی تھیں اور منھ پھیر کر پی بھی لیتی تھیں…… مگر شادی شدہ جوان لڑکیاں، کٹے اور ترش بوتلوں کی آس میں شوہروں سے فرمایش کرتیں…… اور وہ بھی کافی جتن کے بعد۔ نوجوان شوہر، ماں باپ کے نام پر ’’ٹکے والی بوتل‘‘ اٹھاتے اور کمرے تک پہنچاتے ۔
نگار سوڈا واٹر کے بعد شہر میں پھر سوڈا واٹر ہر چوک میں ملنے لگا تھا، مگر نیو روڈ پر ’’لطیف سوڈا واٹر‘‘اور ’’لالا سوڈا واٹر‘‘ اعلا درجے کی بوتلیں تیار کرتے تھے۔ کئی ایک گیسی بوتل مراکز پچھلی تہذیب میں نمایاں مقام پر رہے ہیں۔
مگر اب وہ پینے والے رہے، نہ پلانے والے …… بہ قول ریاضؔ خیر آبادی
ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا
کہ بزم مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے