اسلام آباد کے ایک جج کی جانب سے 27 یوٹیوب چینل بند کرنے کا حکم دراصل ’’پیکا قانون‘‘ کو تنقیدی آوازوں کو خاموش کرانے کی خاطر ہتھیار بنانے کی ایک تازہ مثال ہے۔ اگرچہ حکام نے بارہا یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’پیکا‘‘ (PECA) کو صحافیوں کو نشانہ بنانے یا اختلافِ رائے کو سنسر کرنے کی خاطر ہرگز استعمال نہیں کیا جائے گا، مگر ایک بار پھر اس قانون کو ’’جھوٹی، گم راہ کُن اور ہتک آمیز‘‘ معلومات روکنے کے مبہم جواز کے تحت بروئے کار لایا گیا ہے۔
مذکورہ قانون سے متاثر ہونے والوں میں آزاد صحافی، سیاسی تجزیہ کار اور پاکستان تحریکِ انصاف کا سرکاری اکاؤنٹ شامل ہیں۔ یہ اقدام قومی سلامتی کے تحفظ سے زیادہ بیانیے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش محسوس ہوتا ہے۔ عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق، بند کیے گئے چینلوں پر الزام ہے کہ وہ بدنامی، غلط معلومات پھیلانے اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی کے عمل میں ملوث تھے۔
تاہم، یہ بالکل واضح نہیں کہ ’’جھوٹی خبر‘‘ یا ’’بدنامی‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ وسیع نوعیت کے الزامات اور قومی سلامتی کے حوالوں نے ایک بار پھر ظاہر کیا ہے کہ ’’پیکا‘‘ کو کس حد تک وسیع اور من مانے انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں آزاد صحافت پہلے ہی خطرے سے دوچار ہے۔ حکام مسلسل حکومت کی پالیسی پر تنقید اور ریاست پر حملے کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تقریباً ہر تنقید کو فوراً ریاست دشمنی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ الجھاوخطرناک ہے۔ حکومت، فوج یا عدلیہ (بہ شمول ڈیجیٹل پلیٹ فارمز) کا پُرامن انداز میں احتساب کرنا آئینی حق ہے۔ یہ بغاوت ہے، نہ ریاستی نظم کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہی ہے۔
نو تشکیل شدہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی، اپنے پیش رو کی طرح، حقیقی سائبر جرائم کی روک تھام کی جگہ اظہارِ رائے کی نگرانی میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پیکا کی دفعہ 37، جس کے تحت یہ کارروائی کی گئی، اختلافِ رائے کو کچلنے کے لیے ایک قانونی ہتھیار کے طور پر کام کرتی آ رہی ہے۔ بین الاقوامی نگران ادارے، مقامی صحافتی یونینیں اور ڈیجیٹل حقوق کے کارکنان مسلسل خبردار کر تے چلے آرہے ہیں کہ ایسے اقدامات پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے تحت ذمے داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ اس سے مستقبل میں آن لائن سنسرشپ کے لیے کیا مثال قائم ہوگی۔ اگر محض ریاست کی نیت کے مفروضے پر مبنی تشریح کی بنیاد پر مواد ہٹایا جا سکتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی آزاد آواز محفوظ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یوٹیوب جیسے ٹیک پلیٹ فارمز کو بھی ایک نازک صورتِ حال کا سامنا ہے، جہاں انھیں مبہم قانونی احکامات کی تعمیل کرنا ہوگی یا ریاستی ردِعمل کا خطرہ مول لینا ہوگا۔
اگر واقعی کوئی ہتک آمیز مواد موجود ہے، تو ہتکِ عزت کے آرڈیننس کے تحت قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی جاتی؟ اجتماعی طور پر پابندیوں کا نفاذ کا کیا مطلب ہے؟ ایسی پابندیاں ختم کی جانی چاہییں اور پیکا کے غلط استعمال کو بند کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی ملک سیاسی بے چینی سے قانون سازی کے ذریعے نہیں نکل سکتا۔ نیز اختلافِ رائے کو خاموش کرنا عوامی عدم اعتماد کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنے گا۔
(ڈان کے 10 جولائی 2025ء کے اداریے کا ترجمہ)










