جنگلات میں لگنے والی آگ، مفروضے اور حقیقت

Blogger Tauseef Ahmad Khan

اگر دیکھا جائے، تو ایک طرف گرمی زور و شور سے جاری ہے اور دوسری طرف مقامی جنگلات، جو اس گرمی میں کسی غنیمت سے کم نہیں، روز بہ روز آگ کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سوات میں جنگلات پہلے ہی بہت محدود رہ گئے ہیں، اور جو بچے کھچے جنگلات باقی ہیں، وہ بھی آگ کی نذر ہو رہے ہیں۔
اس تحریر کا مقصد اُن تمام وجوہات پر بات کرنا ہے، جو جنگلات میں آگ کا سبب بن رہی ہیں۔ ہم نے اُن تمام مفروضات پر ایک ایک کرکے بات کرنی ہے، تاکہ اصل وجہ معلوم ہوسکے۔ جب تک اصل وجہ سامنے نہیں آئے گی، تب تک اس کی روک تھام ممکن نہیں۔ خدا نہ خواستہ اگر جلد ہی جنگلات کے بچاو کے لیے اقدامات نہ کیے گئے، تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ہمارے جنگلات راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔
محکمۂ جنگلات اس وقت صرف آگ بجھانے کو ہی اپنی ذمے داری سمجھ رہا ہے۔ وہ جان کی بازی لگا کر آگ تو کسی طرح بجھا دیتے ہیں، لیکن یہ متعلقہ ایجنسیوں کا کام ہے کہ وہ آگ لگنے کے پیچھے چھپے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اُن پر سنجیدگی سے ایکشن لیں، تاکہ کوئی مستقل حل نکالا جاسکے۔
٭ پہلا مفروضہ:۔ ’’چوں کہ گرمیوں میں لاکھوں سیاح سوات کا رُخ کرتے ہیں۔ زیادہ تر سیاح جنگلات میں کیمپنگ کرتے ہیں، وہاں کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جلاتے ہیں اور بچا ہوا ایندھن جھاڑیوں میں پھینک دیتے ہیں، جو آگ کا سبب بنتا ہے۔‘‘
چوں کہ گرمیوں میں ایک معمولی چنگاری بھی آگ بھڑکانے کے لیے کافی ہوتی ہے، اس لیے یہ بات بہ ظاہر قابلِ قبول لگتی ہے، لیکن اگر بہ غور دیکھا جائے، تو ایک ہی وقت میں پانچ سے سات مختلف جنگلات میں آگ لگنا محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ بعض ایسے جنگلات بھی آگ کی لپیٹ میں آئے ہیں، جہاں نہ سیاح آتے ہیں اور نہ مقامی لوگ تفریح کے لیے ہی جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں فضاگٹ پارک کے سامنے جس مقام پر آگ لگی، وہاں سیاح تو دور، مقامی لوگ بھی بہت کم آتے ہیں۔
٭ دوسرا مفروضہ:۔ ’’جنگلات زیادہ درجۂ حرارت کی وجہ سے آگ پکڑتے ہیں۔‘‘
کیوں کہ شدید گرمی کے باعث درختوں سے گرے ہوئے پتے یا چیڑ کے کون گر کر آسانی سے جھاڑیوں میں آگ لگا دیتے ہیں، لیکن یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں جنگلات نہ تو اتنے گھنے ہیں اور نہ گرمی اتنی شدید ہی ہے۔ اگر یہی وجہ ہوتی، تو پنجاب جیسے علاقوں میں ایک درخت بھی نہ بچتا۔ کیوں کہ وہاں سوات سے 40 فی صد زیادہ گرمی ہوتی ہے۔ اگر گرمی ہی بنیادی وجہ ہوتی، تو چانگا مانگا جیسے جنگلات بھی جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکے ہوتے، جب کہ وہاں ایسا کوئی واقعہ ابھی تک پیش نہیں آیا۔ ایک ساتھ 5 سے 6 جنگلات میں آگ بھڑکنا اس مفروضے کو بھی رَد کر دیتا ہے۔
٭ تیسرا مفروضہ:۔ ’’گرمیوں میں چرواہے دور دراز کے جنگلات کا رُخ کرتے ہیں، جہاں جھاڑیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اُن میں بھیڑ بکریاں چل پھر نہیں سکتیں۔ اُن جھاڑیوں کو آگ لگا دی جاتی ہے، تاکہ چرنے کی جگہ بن سکے اور آگ جنگل میں پھیل جاتی ہے۔‘‘
یہ مفروضہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جب بھی چرواہے جھاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں، وہ کچھ دن بعد دوسری سمت نکل جاتے ہیں، لیکن آگ لگنے کے بعد جب ریسکیو ٹیم یا پولیس اہل کار جب وہاں پہنچتی ہے، تو کوئی چرواہا ملتا ہے، اور نہ سیاح۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سابقہ ڈپٹی کمشنر سوات، جنید خان صاحب نے انھی مفروضوں کی بنیاد پر ایک اعلا سطحی ٹیم بھی تشکیل دی تھی، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران شامل تھے، لیکن کوئی بھی مفروضہ ثابت نہ ہو سکا۔
٭ چوتھا مفروضہ:۔ ’’پی ٹی آئی کے دور میں بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع ہوا تھا، جس میں بے پناہ کرپشن ہوئی۔ اس کرپشن کو چھپانے کے لیے جان بوجھ کر جنگلات کو آگ لگائی جاتی ہے، تاکہ کل اگر انکوائری ہو، تو آگ کو بہانہ بنا کر غلط اعداد و شمار کو چھپایا جاسکے۔‘‘ لیکن یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ کیوں کہ جن جنگلات میں 2018ء سے اب تک سب سے زیادہ آگ لگی۔ اُن میں بلین ٹری سونامی والے جنگلات شامل نہیں۔ جہاں نئے پودے لگائے گئے تھے، وہاں ابھی جنگل کی شکل اختیار نہیں کی، اور جہاں آگ لگی ہے، وہ زیادہ تر پرائیویٹ زمینوں پر مشتمل جنگلات ہیں۔
بلین ٹری منصوبے میں البتہ مالی کرپشن ضرور ہوئی، جیسے کہ ایک پودا جو 50 سے 100 روپے میں لگ سکتا تھا، اس کی قیمت 500 سے 1000 روپے دکھائی گئی۔ اس کے دیگر پہلوؤں پر ہم کسی دوسری تحریر میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام مفروضے غلط ہیں، تو اصل وجہ کیا ہے؟
میرا مشاہدہ اور سروے یہ بتاتا ہے کہ آگ زیادہ تر اُن جنگلات میں لگتی ہے، جو پرائیویٹ زمینوں پر واقع ہیں۔ اصل میں سوات کے پرانے دور سے یہ شاملاتی زمینیں موجود ہیں، اور کچھ علاقوں میں ’’ووڈ لاٹ پالیسی‘‘ کے تحت جنگلات لگائے گئے تھے۔ وقت کے ساتھ زمینیں قیمتی ہوتی گئیں اور جنگلات کاٹنے پر پابندی بھی سخت ہوئی، خاص طور پر 2018ء کے بعد۔ اب اُن زمینوں کے مالکان، جنھیں پہلے درخت کاٹ کر فائدہ ہوتا تھا، اُن جنگلات سے نجات پانے کے لیے اُنھیں جان بوجھ کر آگ لگا دیتے ہیں، تاکہ اُن زمینوں پر آبادیاں یا ریسٹ ہاؤسز بنائے جاسکیں۔ آگ کی نوبت اس لیے آتی ہے کہ ’’ووڈ لاٹ پالیسی‘‘ کے تحت وہ مطلوبہ تناسب سے درخت نہیں کاٹ سکتے۔ بہ صورتِ دیگر سنگین جرمانے اور ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ آگ بغیر ایندھن کے لگانا ناممکن ہے۔ پہلے لکیر کی شکل میں ایندھن ڈالا جاتا ہے، پھر آگ لگائی جاتی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں پرائیویٹ جنگلات تیزی سے رہایشی یا تجارتی منصوبوں میں بدل رہے ہیں۔ لوگ پلاٹ بنا کر مہنگے داموں بیچتے ہیں، خاص کر قبضہ مافیا۔ جب ڈپٹی کمشنر جنید خان کے دور میں یہ واقعات پیش آئے، تو مَیں نے اُنھیں یہی مفروضہ پیش کیا، جس کے بعد کچھ افراد گرفتار بھی ہوئے اور ایف آئی آرز بھی درج ہوئیں۔ لہٰذا جہاں جہاں جنگلات میں آگ لگی، اُن کے مالکان کو شاملِ تفتیش کیا جانا چاہیے۔ مجھے اُمید ہے کہ ادارے اصل مجرموں تک ضرور پہنچیں گے۔
اس مسئلے کا ایک اور مستقل حل یہ ہے کہ حکومت پرائیویٹ جنگلات، خصوصاً پہاڑی علاقوں کے بالائی حصوں کو سیکشن فور لگا کر قومی تحویل میں لے۔ مقامی لوگوں کا اثر و رسوخ ختم کرکے وہاں گھنے جنگلات اُگائے جائیں اور اُن علاقوں کو ’’نیشنل پارکس‘‘ قرار دیا جائے۔ پہاڑ اور دریا دونوں قومی اثاثے ہوتے ہیں۔ اُن کی حفاظت اور ترقی حکومتِ وقت کی اولین ذمے داری ہے۔ جب تک یہ عام افراد کی ملکیت میں رہیں گے، سوات میں سیاحت اور قدرتی حسن کی بہ حالی ممکن نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے