عمران خان کی اسیری کا اصل ذمے دار

Blogger Advocate Naseer Ullah

یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کی قیادت میں جس کے سر پر بھی ہاتھ رکھا جاتا ہے، وہ سونا بن جاتا ہے۔ پھر اُس کی مثال ایسی بن جاتی ہے جیسے وہ پہلے کچھ بھی نہیں تھا اور اب ایک لیڈر بن چکا ہے۔
دراصل یہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت کا کمال ہے، مگر کچھ بہروپیے افراد اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سیاست کے کھیل میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسے پہروپیوں میں سے کئی کے پاس تو ناظم یا اپنے محلے کی سیٹ جیتنے کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی، نہ ان میں یہ صلاحیت و اہلیت ہی ہوتی ہے کہ وہ کوئی منصوبہ یا حکمت عملی بنائیں۔ بس وہ اپنے مفادات کے لیے تحریکِ انصاف کے مہا بیانیے (عمران خان کے بیانیے) کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جھوٹ، دھوکا دہی اور دوسروں کے کندھوں کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے کنکشنز (جو اکثر اوقات خود غرض ہوتے ہیں) کی مدد سے اُس مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اُن کے مزے ہی مزے ہوتے ہیں اور اُن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
غور کریں کہ جس مقصد کے لیے عوام نے اُنھیں ووٹ دیا تھا، پھر وہی پورا کرنے سے وہ قاصر رہتے ہیں۔
حال ہی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کے غیرت مند عوام نے عمران خان کے کہنے پر تحریکِ انصاف کی نام نہاد لیڈر شپ کو ووٹ دیا، تاکہ وہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی، عمران خان اور دیگر اسیران کے لیے آواز اُٹھا سکیں…… لیکن 600 دن سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود، ابھی تک کوئی بھی کارکردگی نہیں دکھاسکا۔ اُلٹا، یہ نام نہاد لیڈر شپ اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ لے کر عوام اور کارکنان میں تفرقہ ڈال کر پی ٹی آئی کے دیرینہ اور نظریاتی کارکنوں کو ’’کنفیوز‘‘ کرتی ہے اور اپنے مفادات کو چھپانے کے لیے پردہ ڈالتی ہے۔
دراصل یہی وہ قیادت ہے، جو عمران خان کی اسیری اور گرفتاری کی اصل ذمے دار ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ذمے داری درست طریقے سے نبھاتے، تو عمران خان کب کا آزاد ہوچکے ہوتے۔ اُن کی حکمتِ عملی ہر وقت ناکام ہو جاتی ہے…… مگر اُن میں سے کوئی بھی ایسا شخص نہیں، جو پارٹی کے مفادات کو سچے دل سے سوچے، یا اس کے اصل نظریے کو سمجھے۔ یہ صرف خالی نعرے لگاتے ہیں، بل کہ چیختے ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ کرسی اور اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے پارٹی کی تنظیم کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ان نو سربازوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ لوگ عمران خان سے جھوٹ بولتے ہیں اور پارٹی کے سیٹ اپ (تنظیم) کو تبدیل کرنے کا بہانہ بناتے ہیں…… مگر دراصل صرف چہروں کی حد تک تبدیلی آتی ہے، جب کہ تنظیم میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔
ایم پی ایز اور ایم این ایز کئی کئی عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں، تاکہ اصل اور نظریاتی کارکنوں کی آواز اوپر نہ آ سکے۔ عمران خان جیل میں ہی بند رہیں! ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نظریاتی کارکنوں کی آواز دبائی جائے اور اس کے لیے مختلف ترکیبیں اپنائی جاتی ہیں، جن میں ان نام نہاد راہ نماؤں کے گماشتوں کی مدد سے اصل کارکنوں کو چپ کروایا جاتا ہے۔
حالیہ اڈیالہ جیل کے سامنے حلیمہ خانم اور دیگر کی احتجاج پر سیکورٹی ایجنسیوں اور پولیس کی کارروائی نے پی ٹی آئی قیادت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قیادت احتجاج اور کنفرنٹیشن کے لیے تیار نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے گماشتوں کا ذکر کسی اور وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جینوئن ممبران کی قیادت سے بے زاری اب واضح طور پر سامنے آ چکی ہے۔ اب مزید دیر نہیں ہوسکتی، قیادت کی بے بسی کی علامات کارکنان کے لیے واضح ہو چکی ہیں۔ لہٰذا، پی ٹی آئی کے کارکنان کو کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنا ہوگی اور تمام کنفیوزڈ اور کمپرومائزڈ قیادت کو دست بردار کرانا ہوگا۔
قارئین! کیا آپ نے غور کیا ہے کہ خرابی کہاں پر ہے اور اس کا کیا حل ہونا چاہیے؟
مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کی شروعات زمان پارک سے شروع ہوکر مرشد عمران خان کی گرفتاری پر آکر ختم ہوئی۔ ریاست نے عمران خان کی گرفتاری ایسے طریقے سے کی کہ اس کے لیے الفاظ کا انتخاب بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ریاست کی جانب سے اصل اور نظریاتی کارکنوں کی گرفتاریوں اور جعلی کیسوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا، کون اس کا ذمے دار ہے، کیوں یہ نام نہاد لیڈر شپ اب تک گرفتاری کا سامنا نہیں کر رہی؟ ان سوالات کو سمجھنے کے لیے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ذرا نظر ڈالیں، مادر پارٹی اور ذیلی تنظیموں میں کون، کہاں اور کس کے واسطے بیٹھا ہوا ہے؟
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایمبیسڈر انور مجید کو ڈونلڈ لو (امریکی اہل کار) کی جانب سے دھمکی دی گئی۔ دراصل یہ امریکہ کی دھمکی تھی اور عمران خان کو ہٹانے کی ’’شہ‘‘” دے دی گئی۔ انور مجید نے ’’سائفر‘‘ کے ذریعے اس معاملے کو حکومتِ پاکستان کو بھجوایا، جو کہ سلامتی کمیٹی میں ’’ڈی کوڈ‘‘ کر دیا گیا، جس میں یہی مضامین سامنے آئے۔
پھر عمران خان نے علامتی طور پر سائفر (کاغذ کا ٹکڑا) جلسے میں لہرا دیا، جس پر ریاست پاکستان میں شور برپا کیا گیا اور مقدمہ بنایا گیا…… لیکن اصل بات یہ تھی کہ پاکستان کے حکم ران مقتدر طبقے کو امریکہ کی جانب سے جو پیغام پہنچانا مقصود تھا اور اس پر عمل درآمد کروانا تھا، وہی دیا گیا اور اس پر عمل کروایا گیا۔ عمران خان پر ناحق 200 تک مقدمات بنائے گئے۔ لہٰذا، ریاستِ پاکستان کے کرتا دھرتا نے عمران خان کی حکومت کے خلاف پاکستان کی ساری پارٹیوں کو یک جا کرکے عدمِ اعتماد کی تحریک چلائی، حکومت ختم کی اور عمران خان تاحال اسیری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پاکستانی عوام کو ناحق کیوں سزا دی جا رہی ہے، کیوں دہشت گرد پھر سے واپس آگئے، کیوں سماجی، اخلاقی، سیاسی، مذہبی اور معاشی بحرانات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، کیوں پاکستان کا کوئی قومی مفاد نہیں رہا، کیوں کرپٹ افراد پاکستان پر حکم رانی کر رہے ہیں، کیوں خارجہ تعلقات میں سرد مہری دکھائی دے رہی ہے، کیوں کوئی ریاست پاکستان پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں؟
قارئین! مجھے پتا ہے ان چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں…… مگر ان سوالوں کا جواب از خود ڈھونڈنا بالکل مشکل نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے