چھینک: ایک پیچیدہ عمل

Doctor Noman Khan Chest Specialist

چھینکنا ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں جسم کے کئی حصے شامل ہوتے ہیں۔ یہ عمل اُس وقت شروع ہوتا ہے، جب ناک یا گلے میں کوئی چیز جلن پیدا کرتی ہے۔ یہ جلن الرجی، دھول یا کسی وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔
جلن محسوس ہونے پر، دماغ ناک اور گلے کے پٹھوں کو سگنل بھیجتا ہے۔ یہ پٹھے پھر اکٹھے ہوکر ایک طاقت ور دھکیلا (دھکا) پیدا کرتے ہیں۔ یہ دھکیلا ناک اور منھ سے ہوا اور بلغم کو باہر دھکیلتا ہے۔
چھینکنے سے پیدا ہونے والے دباو کی مقدار مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہے۔ تاہم، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ چھینکنے سے عام طور پر 100 سے 120 ملی میٹر پارہ (mmHg) کا دباو پیدا ہوتا ہے۔ یہ دباو اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ یہ ہوا اور بلغم کو ناک اور منھ سے 100 میل فی گھنٹے سے زیادہ کی رفتار سے باہر دھکیل سکتا ہے۔
چھینکنے کا عمل عام طور پر چند سیکنڈ میں مکمل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جو جسم کو جلن پیدا کرنے والی چیزوں سے پاک کرنے میں مدد کرتا ہے۔
چھینکنے کے عمل کے دوران میں جسم میں کئی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں، جن میں شامل ہیں:
٭ دل کی دھڑکن میں اضافہ، خون کے دباو میں اضافہ، آنکھوں میں پانی آنا اور چہرے کا سرخ ہونا۔
٭ چھینکنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے تھکاوٹ یا کم زوری محسوس ہوسکتی ہے۔ یہ عام بات ہے اور یہ جلد ہی ختم ہو جاتی ہے۔
چھینکنے سے بچنے کے لیے آپ کچھ اقدامات کر سکتے ہیں، جن میں شامل ہیں:
٭ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں:۔ یہ الرجی اور انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے میں مدد کرے گا۔
٭ اپنے ماحول کو صاف رکھیں:۔ دھول اور مٹی کو صاف کرنے سے ناک اور گلے میں جلن پیدا ہونے کا امکان کم ہو جائے گا۔
٭ الرجی سے بچیں:۔ اگر آپ کو الرجی ہے، تو اپنے الرجن سے دور رہنے کی کوشش کریں۔
٭ انفیکشن سے بچیں:۔ اگر آپ بیمار ہیں، تو دوسرے لوگوں سے رابطے سے بچیں۔
اگر آپ کو بار بار چھینکنے کی شکایت ہے، تو اپنے ڈاکٹر سے بات کریں۔ وہ آپ کی شکایت کی وجہ کا تعین کرنے اور علاج تجویز کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے