زندگی کچھ چہرے ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنی فکر، عمل اور جذبے سے معاشرے میں روشنی بانٹتے ہیں، جو لفظوں کے ذریعے زندگی کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور جو اپنے ہنر سے دوسروں کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تصدیق اقبال بابو بھی انھی نایاب شخصیات میں شامل تھے، جو علم، ادب اور معاشرتی شعور کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔ وہ صرف ایک اُستاد یا ادیب نہیں، بل کہ ایک فکری تحریک تھے، جو اپنے قلم سے سوچ کے نئے زاویے تراشتے رہے۔
٭ ادبی و تدریسی زندگی:۔ تصدیق اقبال بابو بنیادی طور پر ایک معلم تھے، مگر اُن کی تدریس محض نصابی کتابوں تک محدود نہ تھی۔ وہ اپنے شاگردوں کو سوال کرنے، سچائی کی تلاش اور تحقیق کی راہ دکھانے پر یقین رکھتے تھے۔ اُن کے پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ طلبہ نہ صرف نصاب، بل کہ زندگی کے عملی اسباق بھی سیکھتے۔
ادب تصدیق اقبال بابو کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اُن کی تحریریں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بل کہ جذبات کی گہرائی، حالات کی تصویر کشی اور انسانی نفسیات کی عکاسی کا بہترین امتزاج تھیں۔وہ خاکہ نگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اُن کے قلم سے نکلے خاکے محض کسی فرد کی سوانح عمری نہیں ہوتے تھے، بل کہ وہ اس عہد کے مزاج، سماجی تغیرات اور انسانی احساسات کے گہرے تجزیے پر مبنی ہوتے تھے۔
٭ ’’مولانا مسعود احمد شہید رحمہ اللہ علیہ کا سوانحی خاکہ‘‘، ایک ناقابلِ فراموش تحریر:۔ میری پہلی ملاقات تصدیق اقبال بابو سے تب ہوئی، جب مَیں نے اُن کی لکھی ہوئی سوانح عمری پڑھی، جو میرے چچا، مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ کے متعلق تھی۔ وہ مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ، جو سوات کے مخدوش حالات میں طالبان کے ہاتھوں شہید کیے گئے تھے۔ یہ سوانحی خاکہ پڑھتے ہوئے مَیں حیران رہ گیا کہ کس طرح تصدیق اقبال بابو نے محض لفظوں سے مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ کی زندگی کا ایسا عکس کھینچا، جیسے میں اُن کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں۔ تصدیق اقبال بابو (مرحوم) کی تحریر میں وہ درد، وہ گہرائی اور وہ سچائی تھی، جو کسی بھی قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھی۔ اُنھوں نے مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ کی علمی خدمات، اُن کی قربانیوں اور اُن کے بے خوف کردار کو ایسی مہارت سے پیش کیا کہ پڑھنے والا اُن کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی وہ تحریر تھی جس نے مجھے تصدیق اقبال بابو کے اندازِ تحریر کا گرویدہ بنا دیا۔ وہ لکھتے، تو یوں محسوس ہوتا جیسے الفاظ بول رہے ہوں، جیسے احساسات کا ایک سمندر قاری کے دل میں اُتر رہا ہو۔
٭ خاکہ نگاری:ایک منفرد اُسلوب:۔ تصدیق اقبال بابو کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی اُن کے مشاہدے کی گہرائی تھی۔ وہ شخصیت کا تجزیہ صرف ظاہری پہلوؤں تک محدود نہ رکھتے، بل کہ اس کے اندر چھپے جذبات، اس کی جد و جہد اور اس کے نظریات کو بھی الفاظ کے سانچے میں ڈھال دیتے۔ اُن کے خاکے زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں محسوس ہوتے، جنھیں پڑھ کر ایسا لگتا کہ جیسے وہ شخص آپ کے سامنے بیٹھا ہو۔
یہی خوبی اُن کے دیگر تحریری کاموں میں بھی جھلکتی رہی۔ مقامی اخبارات، جرائد اور نیوز ویب سائٹس پر ان کی تحریریں شائع ہوتیں، تو قارئین اُنھیں بار بار پڑھنے پر مجبور ہو جاتے۔
٭ الم ناک سانحہ اور ایک عہد کا خاتمہ:۔ زندگی کا سب سے تلخ پہلو یہی ہے کہ یہ اُن لوگوں کو ہم سے چھین لیتی ہے، جو ہمارے لیے سب سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔
تصدیق اقبال بابو کی زندگی کا چراغ بھی ایک الم ناک حادثے میں گُل ہوگیا۔ لاہور میں اپنے دیرینہ ساتھیوں، پروفیسر سبحانی جوہر اور روح الامین نایاب کے ساتھ وہ ایک ہول ناک واقعے کا شکار ہوئے۔ ایک دل خراش حادثے میں وہ بری طرح جھلس گئے۔ روح الامین نایاب تو اللہ کے کرم سے نئی زندگی پاگئے، مگر تصدیق اقبال بابو اور پروفیسر سبحانی جوہر زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ خبرسوات کے ادبی ماحول پر آسمانی بجلی گرنے جیسا عمل تھی۔ ایک ایسی شخصیت، جو زندگی کو لفظوں میں ڈھالتی تھی، خود ایک حادثے کی نذر ہوگئی۔ اُن کی جدائی صرف اُن کے اہلِ خانہ کے لیے نہیں، بل کہ پوری علمی و ادبی برادری کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھی۔
٭ ادبی میراث اور ناقابلِ فراموش یادیں:۔ تصدیق اقبال بابو چلے گئے، مگر اُن کا قلم آج بھی زندہ ہے۔ اُن کی تحریریں، اُن کے خیالات اور اُن کے خواب ہمیشہ ادب کی دنیا میں روشنی بکھیرتے رہیں گے۔ وہ لوگ جو اُنھیں قریب سے جانتے تھے، کہتے ہیں کہ اُن کی سب سے بڑی خوبی، اُن کی سادگی اور خلوص تھا۔ وہ بناوٹ سے پاک، محبتوں میں لپٹے، علم و ادب کے سچے سفیر تھے۔
بابو (مرحوم) کے لکھے ہوئے خاکے، اُن کے ادبی تجزیے اور اُن کے فکر انگیز مضامین آج بھی پڑھنے والوں کے لیے ایک روشنی کی مانند ہیں۔
تصدیق اقبال بابو جیسے لوگ ظاہری طور پر ہم سے بچھڑ جاتے ہیں، مگر اُن کی فکر، اُن کا زاویۂ نظر اور اُن کی ادبی وراثت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ وہ استاد جو روشنی بانٹتا ہے، وہ ادیب جو سوچ کو مہمیز دیتا ہے اور وہ شخص جو اپنی تحریروں سے دلوں پر دستک دیتا ہے، کبھی نہیں مرتا۔
تصدیق اقبال بابو کا سفر یہاں تمام ہوا، مگر ان کی کہانی ہمیشہ زندہ رہے گی۔ وہ ہمارے دلوں میں، ہماری یادوں میں اور سب سے بڑھ کر، ان کی اپنی لکھی ہوئی تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
