دیر مجھے اس لیے پسند ہے کہ یہاں کا موسم مری جیسا ٹھنڈا میٹھا، خوش گوار اور بہت مزیدار ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ شہر بھی ایک پہاڑی پر بنایا گیا ہے، جو سرسبز و شاداب بھی ہے۔ اس میں پانی کے جھرنے بھی ہیں اور ایک ندی بھی یہیں سے گزر کر نیچے جا کر دریائے پنج کوڑہ میں گرتی ہے۔ صاف ستھرا ماحول ہے۔ لوگ بہت اچھے، ملن سار اور شریف النفس ہیں۔ ہم چوں کہ گرم علاقے سے تعلق رکھتے ہیں،اس لیے ہمیں پاکستان کے شمالی علاقوں میں رُکنے کے لیے زیادہ تر وہی علاقے ہی اچھے لگتے ہیں، جو نسبتاً سرد ہوں۔ دیر چوں کہ باقی ارد گرد کے علاقوں سے زیادہ معتدل اور سرد ہے، اس لیے مجھے بھی یہاں رُکنا اچھا لگتا ہے۔ خاص طور پر اُس وقت جب ہمیں چترال کی جانب کوچ کر کے جانا ہو۔ ہاں اگر وادئی کمراٹ کی طرف جانا ہو، تو پھر ہم دیر سے 7،8 کلومیٹر پہلے چکیاتن سے دریائے پنج کوڑہ کے ساتھ مڑ جاتے ہیں اور ہماری منزل کم از کم تھل تک پہنچنا ہوتا ہے۔ جہاں تھل میں کمراٹ روڈ پر ہمارے دوست امان اللہ کا گھر ہے۔ وہاں جاکر ہم رات بسر کیا کرتے ہیں۔
دیر سے پہلے بڑا شہر تیمرگرہ آتا ہے۔ تیمرگرہ میں موسم کافی گرم اور سخت ہوتا ہے۔ گرچہ دریا کنارے ہونے کی بنا پر یہاں رات کو موسم تھوڑا سا قابلِ برداشت ہوتا ہے، مگر پھر بھی اتنا گرم ضرور ہوتا ہے کہ بِنا پنکھے کے آپ یہاں رین بسیرا نہیں کرسکتے۔ کچھ ایسا ہی تلخ اور گرم موسم لواری کے پار والے اگلے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
لواری کراس کرتے ہی سیدھی گرمی سے مٹھ بھیڑ ہوجاتی ہے۔ دروش کی گرمی ہوش بھلا دیتی ہے۔ ویسے بھی اِدھر بورے والا سے چل کر ہم زیادہ سے زیادہ دیر تک پہنچ پاتے ہیں کہ ہماری بس بس ہو جاتی ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ سوات موٹروے بننے کی وجہ سے فاصلے کچھ سمٹ گئے ہیں۔ پیرودھائی لاری اڈّا پنڈی سے چل کر بہ راستہ مردان سے ہوکر اور پھر ملاکنڈ کی چڑھائیاں چڑھتے چڑھاتے کافی وقت لگ جاتا تھا۔ موٹر وے بننے سے اَب چکدرہ تک پہنچنے کے لیے نسبتاً کم وقت درکار ہوتا ہے۔ ورنہ تو تیمرگرہ تک پہنچتے پہنچتے ہی ہماری بلی بسرت ہو جاتی تھی اور نتیجتاً ہمیں تیمرگرہ کے لاری اڈّے کے قریب ہی گرمی سے لڑ بھڑ کر، کسی ہوٹل میں ایک رات کے لیے رُکنا پڑتا تھا۔ اَب تو پھر بھی ہم اتنی دیر میں دیر شہر تک پہنچ جاتے ہیں، مگر ہمارے بائیکر ساتھی چوں کہ جرنیلی سڑک پر چل کر ہمارے پیچھے پیچھے محوِ سفر تھے۔ تیمرگرہ تک کا یہ سارا علاقہ گرمیوں کے موسم میں بہت گرم ہوتا ہے۔ اُن دنوں یہاں درجۂ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ کو ٹچ کر رہا تھا۔ اتنی شدید گرمی میں بائیک چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔
’’جو تن لاگے سو تن جانے‘‘ کے مصداق گرمی کی شدت اور تپش کا عالم وہی جانتے تھے، جن پر گزر رہی تھی۔ ہم تو اپنی اے سی گاڑی میں سفر کرتے مزے میں تھے۔ اسی لیے تو وہ تیمرگرہ تک پہنچتے پہنچتے ہی گرمی سے نڈھال ہوگئے تھے۔ خیر بات چل رہی تھی دیر کی…… ونسٹن چرچل اپنی کتاب ’’جنگ مالاکنڈ‘‘ میں ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’چکدرہ سے آگے پہیوں والی گاڑی کسی طرح نہیں جاسکتی۔ یہاں سے آگے جانے کے لیے گھوڑوں اور اُونٹوں کے لیے راستہ ہے۔ پنج کورا دریا کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ 5 میل کا سفر طے کریں، تو آگے ریاستِ دیر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں پر پھر ایک پُل تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پُل سے گزر کر دریا کے دائیں کنارے پر آ جاتے ہیں۔ یہاں پر دریا میں ایک دیر ندی بھی آ کر گرتی ہے۔ اس ندی کے ساتھ ساتھ ہی راستہ دیر تک چلا جاتا ہے۔ دیر سیدو شریف سے 50 میل کے فاصلے پر ہے۔‘‘
اسی جرنیلی سڑک کا ذکر کرتے ہوئے وہ تھوڑا آگے جا کر لکھتے ہیں کہ ’’ریاستِ دیر میں یہ سڑک 73 میل تک گزرتی ہے۔ دیر کا خان بھی حکومتِ ہند سے سالانہ 60 ہزار روپے بہ طور سبسڈی وصول کرتا ہے اور وہ اس کے بدلے 400 مسلح قبائلیوں کو انگریز افسروں کی حفاظت پر مقرر کرتا ہے۔‘‘
پھر وہ لکھتا ہے کہ ’’یہ انتظامات انگریزوں کو بہت ہی فائدے دیتے ہیں۔ قبائلی اپنے نوجوان جنگ جوؤں سے ہتھیار لے کر نہ صرف غیر مسلح رکھتے ہیں، بل کہ وہ اُنھیں انگریزوں پر حملہ آور ہونے سے بھی منع رکھتے ہیں۔ دیر کا خان بھی انگریزوں سے تعلق رکھ کر خوش ہے۔ کیوں کہ اُسے انگریزوں سے مدد بھی ملتی ہے۔ اس علاقے کے خان ہمیشہ غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار رہتے ہیں۔ اس لیے وہ خود بھی کسی بڑی طاقت کی مدد کے خواہاں ہیں۔‘‘
دیر کی حدود بن شاہی کے علاقے میں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں، جب کہ دوسری طرف سوات اور چترال سے جا ملتی ہیں۔ ماضی میں دیر مختلف تہذیبوں کا گڑھ رہا ہے۔ ماضی میں اس علاقے کو گورائے، یاغستان، بلورستان اور مساگا کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا۔ دیر نام کی وجۂ تسمیہ یہاں بدھ مذہب کی ترویج و ترقی کے بعد دریائے پنج کوڑہ کے ارد گرد پائی جانی والی بدھ خانقاہیں تھیں، جن کی وجہ سے ہی دیر کا نام سامنے آیا تھا۔ فارسی میں دیر سے مراد ’’مشکل رسائی‘‘ ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ علاقہ بہت دور دراز اور ناقابلِ رسائی علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ ماضی میں واضح زمینی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے تک رسائی بہت مشکل ہوا کرتی تھی۔
برصغیر میں موجود 562 چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی طرح دیر بھی ایک نوابی ریاست تھی، جو کہ چترال کی نسبت بہت چھوٹی بھی تھی۔ کیوں کہ چترال اس سارے علاقے میں سب سے بڑی ریاست ہوا کرتی تھی۔ ان ریاستوں کی آپسی چپقلش چلتی رہتی تھی۔ جس کا زور چلتا، وہ دوسری ریاست پر حملہ کرکے اُس کے علاقے ہتھیا لیتا تھا۔ اسی آپسی چپقلش کا فائدہ انگریزوں نے بھی اُٹھایا اور ایک ایک کر کے سب ریاستوں پر قبضہ کرتے رہے۔ ان علاقوں میں کبھی کوئی مستحکم حکومت نہ تھی۔
دیر کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کسی زمانے میں دراوڑی اور آریائی لوگ یہاں آباد تھے۔ دراوڑ ماضی میں پورے جنوبی ایشیا پر حکم رانی کرچکے ہیں۔ جب کہ آریائی سنسکرت بولنے والے لوگ تھے، جن کی تاریخ 1500 قبل مسیح کی ہے، جب اُنھوں نے متحدہ ہندوستان پر حکم رانی کی تھی۔
دیر سے پہلے داروڑہ نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ آتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق داروڑہ لفظ کا تعلق دراوڑ سے ہے۔ یہ دراوڑی قوم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ماضی میں یہ دراوڑی قوم کا مسکن رہا ہے۔ پھر اس کے بعد آریائی لوگ آئے، جنھوں نے یہاں پر پورے گندھارا ریجن بہ شمول سوات، ٹیکسلا اور دیر پر 522 قبلِ مسیح میں حکم رانی کی۔ پھر 327 قبلِ مسیح میں افغانستان کے راستے باجوڑ سے ہوتے ہوئے سکندرِ اعظم یہاں پہنچا۔ اس نے بہ زورِ بازو اس سارے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا، جو 200 سال تک جاری رہا۔ 10ویں قبل مسیح سے لے کر 15ویں صدی قبل مسیح تک یہ سارا علاقہ کافرستان کہلاتا تھا۔ کیوں کہ یہاں اس سارے علاقے پر کافروں کی حکم رانی رہی، جو اُس وقت دیر کے علاقے کوہستان میں رہایش پذیر رہے۔ بعد میں پٹھانوں کے ایک قبیلے یوسف زئی نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔
ان ساری تہذیبوں کا سورج اُس وقت غروب ہوا جب اس طرف کو محمود غزنوی نے رُخ کیا۔ 998 ہجری میں محمودِ غزنوی کی فوج نے سوات کے مقام اوڈیگرام میں راجہ گیرا کو شکست دی تھی۔ اس وقت یہ سارا علاقہ بہ شمول سوات، چترال، دیر اور بونیر سمیت مساگہ ریاست کہلاتا تھا۔
اوڈیگرام سوات میں ہمارا ایک دوست شوکت علی سوات رہتا ہے، جو یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم جب بھی سوات جائیں، اُسی کے ہاں مہمان ٹھہرتے ہیں۔ وہ گھر پر ہو یا نہ ہو۔ اُس کے ڈیرے کی چابی ہمیں مل جاتی ہے اور ہم بلا جھجک وہاں جا کر رات بسر کیا کرتے ہیں۔ اس کے گھر کا روایتی ناشتا جس میں شہد، ملائی، مکھن، پراٹھا سمیت بہت کچھ شامل ہوتا ہے، بڑا لذیذ ہوتا ہے۔
آمدم برسرِ مطلب، دیر پر منگول حکم ران تیمور نے 1369ء تک حکم رانی کی۔ تیمر گرہ کا نام بھی تیمور کی نسبت ہی سے ہے۔ تیمرگرہ کو پہلے پہل تیمرگڑھ کہا جاتا رہا، جو بعد میں آہستہ آہستہ تیمرگرہ بن گیا۔ کابل سے آ کر یوسف زئی قبائل کے یہاں حملہ آور ہونے تک یہاں پر منگول ہی حکم ران تھے۔
دیر میں آبشار ہوٹل کے عین سامنے ایک ڈرائی فروٹ کی شاپ ہے، جس پر خوبانی کا روایتی جوس ’’چمبہ روح‘‘ بھی ملتا ہے، جس میں یہاں کے مقامی خشک پھل بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی جوس گلگت بلتستان میں بھی بنایا جاتا ہے، مگر وہاں اس کا نام ’’شموس‘‘ ہے۔ مَیں ہوٹل کے باہر سڑک کنارے بیٹھا، اپنے بائیکر ساتھیوں کا منتظر تھا کہ میری نظر اچانک اس شاپ پر لکھے ’’چمبہ روح جوس‘‘ کے نام پر پڑی۔ بس پھر کیا تھا، میرے قدم بدوبدی اس شاپ کی جانب اُٹھ گئے۔
شاپ کیپر ایک بہت اچھا اور سلجھا ہوا شخص لگا۔ بڑے پیار و احترام سے ملا۔ مَیں نے اُسے جوس کا کہا، تو اُس نے پاس پڑے آم پکڑ کر چھیلنا شروع کر دیے، بلکہ ایک آم چھیل کر کاٹ بھی ڈالا۔ ابھی وہ اسے جوسر مشین میں ڈالنے ہی والا تھا کہ مجھے شک گزرا، تو مَیں نے اُسے کہا کہ میں خوبانی والا جوس پینا چاہتا ہوں۔ اُس نے آم ادھر ہی چھوڑا اور خوبانی جوس بنانے لگ پڑا۔ مَیں نے اُسے آم کی رقم دینے کی بھی آفر کی، مگر اُس نے یہ کَہ کر ٹھکرا دی کہ کوئی بات نہیں۔ مَیں یہ آم والا جوس کسی اور گاہک کو بنا کر دے دوں گا۔
’’چمبہ روح‘‘ کا ایک گلاس ہی روح تک رجا دیتا ہے۔ پیٹ کو یوں بھر دیتا ہے کہ کسی اور شے کے لیے جگہ نہیں بچتی۔ جگہ بہ فرضِ محال ہو بھی، تو کسی اور شے کو کھانے پینے کو دل نہیں کرتا۔ ابھی مَیں نے جوس کا گلاس پی کر رکھا ہی تھا کہ اُس نے جوسر مشین میں بچا بقیہ آدھا گلاس جوس بھی میرے گلاس میں ڈال دیا اور کہنے لگا کہ یہ بھی نوش فرمالیں۔ یہ میری طرف سے گفٹ ہے۔ مَیں تو پہلے والے گلاس سے ہی نکو نک رجا ہوا تھا۔ اُس نے اتنے پیار سے کہا کہ مجھے چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسے بھی پینا پڑا۔ ویسے بھی مجھے یہ سوغات مفت مل رہی تھی اور مفت کی سوغات تو کوئی نہیں چھوڑتا۔ مفت کی شراب تو قاضی بھی نہیں چھوڑتا۔ یہ تو پھر بھی چمبہ روح جوس تھا۔ مَیں بھلا اُسے کیسے نظرانداز کرتا۔ مَیں نے سوچا کہ ایک بار تو پیو۔ پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی بلڈ پریشر یا ہاضمے کی گولی کھانا پڑے گی۔ کیوں کہ اس کی تاثیر بھی تو بہت گرم ہوتی ہے۔
ساقی تیری محفل میں ہم جام اچھالیں گے
جب کعبے میں جائیں گے زم زم سے نہا لیں گے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔