ہے نا مزے کی بات کہ حکومت اسلام آباد دھرنے میں لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے ایک طرف لاشیں نہ گرانے کی بات کر رہی ہے، اور دوسری طرف اپوزیشن سیکڑوں لاشوں کی تعداد کو 14 تک محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک طرف سیاسی پارٹی کو گند، شرپسند اور فتنہ قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے، تو دوسری طرف حکومت پر جعلی ہونے اور اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ ہونے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
ایک طرف حکومت پر سانحۂ اسلام آباد کے زخمیوں اور لاشوں کا ڈیٹا اسپتالوں سے چرانے کا الزام لگ رہا ہے، تو دوسری طرف پی ٹی آئی اس حوالے سے کوئی موثر حکمتِ عملی پیش نہیں کرسکی اور نہ قابلِ ذکر ڈیٹا ہی فراہم کیا جا سکا ہے۔
ایک طرف حکومت مظاہرین پر گولی چلانے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر رفوچکر ہوگئی، تو دوسری طرف تحریکِ انصاف کی قیادت کبھی یہ کہتی ہے کہ خان صاحب نے سنگجانی میں جلسہ کرنے کا کہا تھا، اور کبھی بشریٰ بی بی پر ڈی چوک جانے کے اصرار کا الزام لگایا جاتا ہے، جس سے مخالفین کو پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی بُو محسوس ہو رہی ہے۔
ایک طرف پی ڈی ایم کی حکومت ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پروپیگنڈا کرتی نظر آئی، تو اَب دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر حکم رانی کر رہی ہے۔ اُن کے ہر جائز و ناجائز عمل کو شرفِ قبولیت مل چکی ہے۔
ایک طرف زخمیوں کے علاج کے بہ جائے اُنھیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف پی ٹی آئی اُن زخمیوں کو نہتا ثابت کرنے کے لیے ویڈیو شواہد پیش کر رہی ہے۔
ایک طرف ریاست پر الزامات لگ رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت کہتی ہے کہ ہم تحریکِ انصاف کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔
ایک طرف سیاسی قیدیوں کو دہشت گرد کَہ کر قید کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف خیبر پختونخوا حکومت زخمیوں کے علاج کے لیے امدادی رقوم دینے پر بہ ضد ہے۔
ایک طرف صرف پختونوں کو ٹارگٹ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف اس پر صوبائیت اور لسانیت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف تحریکِ انصاف کی قیادت اور تنظیم میں بدنظمی ہے، تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بھی ایک صفحہ پر نہیں۔
حکومت سانحۂ اسلام آباد پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ایک طرف پی ٹی آئی علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موروثیت سے تشبیہ دے رہی ہے، تو دوسری طرف خان صاحب نے اُنھیں دھرنے کے لیے ذمے داریاں سونپ دی ہیں۔
اب کون سچا ہے اور کون جھوٹا…… یہ وقت ہی بتائے گا!
ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف پی ٹی آئی کی قیادت پر دہشت گردی کے مقدمات (ایف آئی آر) درج کیے گئے ہیں، تو دوسری طرف پی ٹی آئی لاشوں اور زخمیوں کے حوالے سے وزیرِ داخلہ، وزیرِ اعلا پنجاب اور وزیرِ اعظم کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے پر غور کر رہی ہے۔
ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے خلاف نفرت انگیز اور جھوٹ پر مبنی ویڈیوز چلا رہی ہیں، تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے نمایندے حکومت کو نااہل ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر سانحۂ اسلام آباد کی فوٹیج دکھا کر اس معاملے کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے پر غور کر رہی ہے۔
ایک طرف اسلام آباد کو کنٹینرستان بنا دیا گیا ہے، تو دوسری طرف کرم میں انسانی جانوں کے المیے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف دارالحکومت اسلام آباد میں لاشیں گرانے کے واقعے کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی، تو دوسری طرف بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لاشوں کے انبار پر کسی کی نظر نہیں۔
عجیب صورتِ حال ہے کہ ایک جھوٹ کا جواب مزید جھوٹ بول کر دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومتی بیانیہ پھیلانے کے لیے پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دوسری طرف پی ٹی آئی میں بھی گروپ بندی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
ایک طرف ایف بی آر اور نیب کو اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف عدلیہ کو بھی زبردستی سیاست زدہ کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، تو دوسری طرف تحریکِ انصاف کی سینٹ نشستوں پر غیر آئینی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے یہ المیے اب گنتی سے باہر ہوچکے ہیں۔ جمہوریت ایک زحمت بن چکی ہے۔ مارشل لا نے قوم کی تقدیر کو عذاب بنا دیا ہے، اور اب اس کا مداوا ممکن نظر نہیں آتا۔
اب عوام نے اُمید لگانا چھوڑ دی ہے۔ سیاسی بخار مزید شدت اختیار کرچکا ہے اور عوام روز بہ روز مزید خوار ہو رہے ہیں۔
اب ملک میں کسی کو سر اُٹھانے کی جرات نہیں ہوگی۔ کسی بھی اختلافی یا گم راہ کن خبر پھیلانے کی صورت میں پانچ سال قید یا دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا یا دونوں دیے جا سکتے ہیں۔
اب حکومت کے لیے میدان خالی ہے۔ وہ جتنا چاہے گم راہی پھیلا سکتی ہے۔ اب کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ گولی کیوں چلائی؟
قومی حکومت کا نعرہ اپنی اِفادیت کھو چکا ہے۔عوام کے ہاتھ سے امید کا دامن چھوٹ چکا ہے۔ کیوں کہ اس ملک کو سیاسی بدہضمی کا عارضہ لاحق ہوچکا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔