تحریر: ثامیرہ خان
اس ناول کو پڑھتے جو میرے محسوسات تھے، مَیں صرف وہی بیان کرسکتی ہوں یا شاید وہ بھی ٹھیک سے بیان نہ کرسکوں۔ اس کتاب نے مجھ پہ ایک عجیب کیفیت طاری کی تھی، جو اس کو مکمل کرنے کے بعد مزید گہری ہوگئی۔
اس میں ڈھیر ساری باتیں اور قصے ایسے ہیں، جنھیں عقل تسلیم نہیں کرتی، لیکن یہ سب استعارے تھے، اُس خاص صورتِ حال کو سمجھانے کے لیے۔ جیسے ارلیانو کا سالوں سال ملکیادیس کے کمرے میں بند رہنا کھائے پیئے بغیر…… لیکن یہاں مصنف تنہائی کی انتہائی صورت بیان کر رہا تھا، دنیا و مافیہا سے بے خبر ۔
مَیں جوزے آرکیدو کے ساتھ تھی، جب وہ نئی بستی بنا رہا تھا۔ کسی غیر مرئی قوت کی طرح میں ارسلا کے اُن خدشات کو بھی محسوس کر رہی تھی کہ کہیں ہماری اولاد کی دُم نہ نکل آئے۔ مَیں نے اُس بستی کو ماکوندو کو اپنی آنکھوں سے آباد ہوتے دیکھا ہے۔ اور اس بستی کو مذہب، ٹیکنالوجی اور دیمک کے آنے سے برباد ہوتے بھی دیکھا۔
مجھے اپنا بچپن دِکھا جب جوزے آرکیدو نے نئے نئے معجزات دیکھے۔ بچپن میں جب نئے نئے شہر میں منتقل ہوئے، تو ہر چیز میرے لیے ویسے ہی تھی جیسے جوزے آرکیدو کے لیے برف اور پکھی واسوں کے لائے نئے نئے معجزات تھے۔
اُس کے گھر کو پھلتے پھولتے دیکھا اور پھر اس کے ساتھ شاہ بلوط کے درخت کے نیچے صبحیں اور شامیں گزاریں۔ اس تنہائی کو جھیلا جو ازل سے ہماری فطرت کا حصہ ہے۔
مَیں نے رابیکا کے ساتھ وہ وقت گزارا جب وہ جوانی کی تنہائی میں اپنی اندر کی تنہائی سے تنگ آکر مٹی کھاتی تھی۔
مَیں امرانتا کے ساتھ بھی اُس کی جیلسی اور محبت کی آگ میں بھڑک رہی تھی۔ میرے لیے وہ دونوں صحیح تھیں، دونوں کا جلنا فطرت کا حصہ تھا۔
ارلیانو کی جنگوں میں بھی اس کے ساتھ رہی ہوں اور اس کے بعد اُس کی ورکشاپ میں اُس کی تنہائی محسوس کی۔ جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں اور اس نے جنگوں میں کیوں حصہ لیا؟ یہی سوچتے سارا دن نقرائی مچھلیاں بناتے اور پھر شام کو ان سب مچھلیوں کو پھگلا کر خوبارہ بناتے دیکھا اور آخر میں تنہائی سے ہار کر درخت سے ٹیک لگا کر اپنی جان دے دی۔
یہ ناول نہیں، بل کہ ایک دنیا ہے۔ اس کو جیسے جیسے پڑھتے جاؤ اس کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔
مَیں نے یہ ناول صرف پڑھا نہیں، اس کے ساتھ جیا ہے۔ اس کے ہر کردار کو خود پہ طاری کیا ہے اور سمجھا ہے کہ یہ ہم ہی ہیں، جو کبھی ارسلا کی طرح اپنے دامن پھیلا کر سب کو سمیٹ سکتی ہیں اور کبھی آرکیدو کی طرح یہ ہم ہی ہیں، جو ماکوندو کو اپنی غرض، انا اور نفرت میں برباد کرتے ہیں اور میمی کے جیسے باغی بھی۔ لیکن پھر بھی تنہائی ان سب کااور ہمارا مقدر ہے۔
تنہائی سے پیدا ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے جتنی بھی کوشش کی جائے، کبھی نہیں بھر سکتے۔ ہم اپنے اندر کی تنہائی کو دور کر نے کے لیے محبت، نفرت، انتقام اور جنسی تعلقات کا سہارا لیتے ہیں، لیکن ہماری تنہائی سرخ دیمک کی طرح ہماری طرف لپکتی رہتی ہے۔ اس کو خود سے دور رکھنے کے لیے جتنا چونا ڈال لیں، یہ پھر بھی ہماری ہی طرف لپکتی ہے اور فریننڈا کی طرح آخر میں ہم خود کو کمرے میں بند کرکے دروازے کھڑکیوں پہ کراس بنا کر ہمیشہ کے لیے اپنے ہی اندر بند ہوجاتے ہیں۔
مَیں نے سنا تھا کہ ڈاکٹر نعیم کلاسرا کا ترجمہ اتنا معیاری نہیں۔ اس ڈر کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا۔ زیادہ کرداروں اور ان کے ایک جیسے ناموں کی وجہ سے مترجم بھی کئی جگہ الجھا ہوا محسوس ہوا، ماسوائے اس کے ترجمے میں اور کوئی مسئلہ نہیں لگا مجھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔