عبدالحلیم ایڈوکیٹ ماہر قانون دان، ترجمانِ ریاستِ سوات، قانونی مشیر شاہی خاندان اور سیکرٹری انفارمیشن ریاستِ سوات تھے۔
مشر حلیم صاحب کا نام عوامی احترام میں رواج کی حیثیت تو رکھتا ہی ہے، مزید یہ کہ والئی سوات نے حکم جاری کیا تھا کہ جو عبدالحلیم کہے گا تو نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ ضرور کہے گا۔
مشر حلیم صاحب حلیم طبع، بااعتماد، لائق، باذوق، بااخلاق، اُستاد، مدبر، عالم، تاریخ کا ایک باب اور ایک بلند انسان تھے۔ غالیگے سوات کے رہنے والے تھے۔ اُن کے بزرگ حافظ جی بابا المعروف سپین بابا کا مزار غالیگے میں ہے اور ان کا گاؤں فارمولئ صوابی تھا۔
روایت ہے کہ حافظ جی بابا کی جاگیر/ ورثے میں آدھا گاؤں آیا تھا۔ اسی روایت کے مطابق یہی جائیداد خاندان میں تنازعات کا سبب تھی۔ مذکورہ دولت والدہ کے یتیم رہ جانے والے بیٹے کو چھین سکتی تھی۔ والدہ محترمہ نے اکلوتے بیٹے کو جائیداد کے تنازع سے بچانے کی خاطر غالیگے ہجرت کی اور یہاں پناہ لی۔ سوات آکر کم سن بچے کو اعلا بزرگوں کی سرپرستی نصیب ہوئی۔ حصولِ علم کے بعد حافظ بابا جی نے تصوف کا راستہ چنا اور پوری زندگی وقف کی۔ مقامی صاحب زادگان اور یوسف زئی قبائل نے انتہائی خدمت کی۔ اُن کی شخصیت کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ سیدو بابا اکثر ملاقات کے لیے لوئے جماعت (جامع مسجد) تشریف لاتے اور طریقت و تصوف کی علمی گفت گو ہوتی۔
حافظ بابا جی کی دو اولادیں تھیں: سید حسن اور سید حسین ۔ اس طرح پھر سید حسین صاحب کے تین بیٹے تھے: امیر غوث تحصیل دار صاحب، امیر واعظ اور غلام حسین۔
آگے امیر غواث صاحب کے ہاں چار بچوں نے جنم لیا: محمد مرزا ریاستِ سوات، عبدالکریم تحصیل دار پورن، الپوری، سالارزئی، شریف احمد جمع دار شموزئی قلعہ اور حبیب الرحمان جمع دار پاچا کلے، جنھوں نے پھر پاچا کلے ہی میں مستقل رہایش اختیار کی۔
اس طرح عبدالکریم تحصیل دار صاحب کے دو بیٹے تھے: عبدالحلیم وکیل صاحب اور عبد العظیم صاحب۔
عبدالحلیم وکیل صاحب 6 نومبر 1937ء کو پیدا ہوئے اور 15 جولائی 2016ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ودودیہ ہائی اسکول سے 1951ء میں مڈل کیا اور 1953ء میں جہانزیب کالج کے تحت میٹرک پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ 1958ء میں کراچی سے کیا۔ بی اے جامعہ کراچی سے 1961ء میں کیا۔ ایل ایل بی کی ڈگری مسلم لا کالج کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں لی۔ پہلی ملازمت متحدہ پاکستان میں وزارتِ تعمیرِ نو و اطلاعات میں پشتو زبان کے ترجمان کے طور پر کی۔ یہ 1959ء سے 1951ء تک کا دور تھا۔ پھر مرکز سے ریاستِ سوات تشریف لائے۔ 1966ء سے 1970ء تک ریاستِ سوات میں مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ فروری 1966ء میں اُن کا تقرر سوات سیکرٹریٹ میں جب کہ یکم ستمبر 1966ء کو ریاستِ سوات کے ترجمان کے طور پر ہوا۔ اس طرح 12 جون 1968ء کو اسسٹنٹ سیکریٹری آف سوات سٹیٹ کم انفارمیشن سیکریٹری ریاستِ سوات مقرر ہوئے۔
والی صاحب نے چند افسران کے نام ریاستِ پاکستان کو دیے تھے، جن کی قابلیت اور اہلیت کی ریاستی ضمانت دی گئی تھی۔ ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ ان قابل افسران کو ’’سروس آف پاکستان‘‘ میں لے جایا جائے۔ کچھ اُن افسران کا انضمام کی وجہ سے دل برداشتہ ہونا تھا، کچھ ریاستِ پاکستان کے افسران کا ڈھیلا پن اور غیر سنجیدہ ماحول اور خاص کر نئی ریاست کی بے وفائی، وعدہ خلافی اور بغض کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر سوات کے ایک حکم نامے (24 مئی 1971ء) میں مرکزی حکومت کی ہدایت پر اُن افسران کو ریٹائرمنٹ دے دی گئی۔
مذکورہ افسران نے والی صاحب کی ملازمت جاری رکھنے کی خواہش کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ عبدالحلیم ایڈوکیٹ نے وکالت شروع کرنے کی خواہش کی تھی، جس کو والی صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ مستقل جڑے رہنے کی شرط کے ساتھ مان لیا اور پہلے ملازمت جاری نہ رکھنے کی خواہش پر اپنی ناراضی کو ختم کر دیا۔
وکیل صاحب نے 24 مئی 1971ء کو مغربی پاکستان بار کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ 26 جون 1976ء کو ’’این ڈبلیو ایف پی ہائیکورٹ‘‘ کا لائسنس حاصل کیا۔ تمام ریاستی عہدوں اور سرکاری ملازمت کے خطوط درجِ ہیں:
٭ 24 مئی 1971ء کے خط میں شیر بہادر خان مشیر صاحب۔
٭ عبدالحلیم سیکرٹری انفارمیشن ریاست سوات۔
اس کے بعد تیسرا نام میرے والد صاحب خیرالامان تحصیل دار صاحب کا ہے۔
مشر حلیم صاحب میری والدہ کے فرسٹ کزن اور والد صاحب کے بہترین دوست تھے۔ اس لیے اپنے بچپن میں ان کی یادیں میں بہت واضح پاتا ہوں۔ امان کوٹ جی ٹی روڈ ڈاکٹر حبیب اللہ صاحب کے کلینک والی جگہ سیڑھیاں چڑھ کر ان کا گھر تھا۔ ہمارا بہت آنا جانا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر پہلا رنگین ٹی وی شاید شہر کا پہلا رنگین ٹی وی تھا، جسے وہ اور میرے والد صاحب ہمارے گھر لائے تھے، آسمانی رنگ کی فوکسی ویگن کار میں۔
بہت پیار کرنے والے اور شفیق انسان تھے۔ ان کے انتقال کی خبر ملی، تو مَیں سوات اُن کے جنازے میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ میرے لیے واقعی بہت ہی صدمے کا موقع تھا۔
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔