سوات سرینا ہوٹل (سوات ہوٹل) کی یہ عمارت ریاستِ سوات دور کی ہے۔ یہ تصویر ستمبر 2022ء کو اُتاری گئی ہے۔
اس عمارت کے حوالے سے کئی متضاد آرا سامنے آئیں، مگر ڈاکٹر سلطانِ روم اپنے تحقیقی مضمون "سوات ہوٹل” میں اس گتھی کو سلجھا چکے ہیں کہ یہ عمارت کس کے زیرِ استعمال رہی۔
ڈاکٹر سلطانِ روم کے مضمون کا متعلقہ پیرا نیچے ملاحظہ ہو:
علاوہ ازیں، وزیر حضرت علی کا یہ بنگلہ یا دیرہ اُس کا ذاتی مہمان خانہ یا گیسٹ ہاؤس تھا نہ کہ ’’اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس‘‘۔ جیسا کہ زیب سرؔ کے بیان سے بھی واضح ہے کہ اُن دنوں میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس یا سرکاری مہمان خانے بڑینگل (موجودہ عقبہ) میں باچا صاحب کے بنگلے ہی میں تھے۔ سابق وزیر یا وزیرِ اعظم یا مشر وزیر کے بنگلے کو 1943ء میں اُس کے سوات چھوڑنے کے بعد بھی باچا صاحب کے دورِ حکم رانی میں ’’اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس‘‘ کے طور پر استعمال نہ کرنا والی صاحب کے درجِ ذیل بیان سے بھی واضح ہے۔ سابق وزیر یا وزیرِ اعظم یا مشر وزیر کے بنگلہ یا دیرہ کی عمارت کو ہوٹل میں کیوں تبدیل کیا گیا یا اس تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب والی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری ہی میں موجود ہے۔ والی صاحب کی اس خود نوشت سوانح عمری کے صفحہ 126 پر بیان کے مطابق:
We wanted Swat to be open to tourists; my father and I both welcomed them. In his time, there was no hotel here, so whenever a European came, he used to stay with me. Luckily they were few. My house became home-cum-guest-house. When the Wazirs left Swat and I became Ruler, I took the house that had been occupied by the elder Wazir and made it into the Swat hotel – it has been expanded several times since then. From then on, we put most of our guests there – they were not charged of course – in that way I could be free to do my State work.
یعنی والی صاحب کے بہ قول: ہم سوات کو سیاحوں کے لیے کھول کے رکھنا چاہتے تھے۔ مَیں اور میرے والد دونوں نے اُنھیں خوش آمدید کہا۔ میرے والد کے دورِ حکم رانی میں یہاں پر (یعنی سیدو شریف میں) کوئی ہوٹل نہیں تھا، پس جب بھی کوئی یورپی یہاں آتا، وہ میرے ہاں ٹھہرتا تھا۔ خوش قسمتی سے ایسے افراد کم تھے۔ میرا گھر یا ٹھکانا، مکان اور مہمان خانہ بن گیا۔ جب وزیروں نے سوات چھوڑا اور مَیں (دسمبر 1949ء میں) حکم ران بنا، تو مَیں نے اُس گھر کو، جس پر مشر وزیر براجماں تھا، لے کر اُسے سوات ہوٹل میں تبدیل کیا۔ اِسے اُس کے بعد کئی دفعہ وسعت دی گئی ہے۔ اُس کے بعد، ہم اپنے اکثر مہمانوں کو یہاں ٹھہراتے تھے۔ تاہم اُن سے کرایہ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ اس طرح مَیں اپنے ریاستی اُمور کی انجام دہی کے لیے آزاد رہا۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)