ٹیکنالوجی، شناخت اور مذہب

Blogger Khwaja Naveed
 انسانی علم کے پھیلاو کا عمل مسلسل جاری و ساری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار بھی تیز ہوتی جارہی ہے۔ 
تصورِ علم ، علم کے ذرائع اور اس کے حدود یعنی کہ نظریۂ علم (Epistemology) ہی وہ چشمہ ہے، جو ہمارے عقائد، ٹھیک اور غلط کے پیمانوں، اقدار کے تعین (Axiology) اور چیزوں اور تصورات کے پرکھنے کے عمل پر نتیجہ خیز اثرات ڈالتے ہیں۔ اسی بنیاد پر حقیقت (Reality) کے ساتھ ہمارا تعامل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اخلاقی اقدار اور اصول ہی وہ پیمانہ ہوتے ہیں، جس سے چیزوں اور حقائق کے متعلق ہمارا تاثر پنپتا ہے۔ علم اور اخلاقی اقدار کا یہی تعامل اس دنیا اور اس کے حقائق کے ساتھ ہمارا تعلق استوار کرتا ہے۔ جوں جوں علم کا پھیلاو ہوتا ہے، توں توں یہ تعامل حرکت پذیر ہوتا ہے۔ اگر اخلاقی اقدار اور اصول اس تعامل کے نگران (Regulator) ہوں، تو نتیجتاً حقائق کو دیکھنے کا انداز سلجھتا اور سمجھنے کی گہرائی نکھرتی رہتی ہے، لیکن اگر یہ تعامل اخلاقی اقدار و اصول پر ہی وار کرنے لگے، تو نتیجتاً یہ عمل ایک بے ڈھنگے پن کا شکار ہوکر انسانیت، انسانی حقوق اور عدلِ اجتماعی کو اپنی لپیٹ میں لینے کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔
کارل مارکس کا کہنا ہے کہ ’’انسان اپنے پیداواری عمل کا پرتو ہوتا ہے اور جوں جوں اس کا پیداواری عمل تبدیل ہوتا ہے، توں توں اس کی شناخت اور شخصیت کی تشکیل تبدیل ہوتی ہے۔‘‘
اس پیرائے میں جب ہم ٹیکنالوجی کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہول اُٹھنے لگتا ہے کہ ہم بے سمجھے بوجھے کس طرح ایک عفریت کے منھ میں سر دیے چلے جارہے ہیں جو کہ سب کچھ ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں ٹیکنالوجی نے ہمارے پیداواری عمل کو یک سر پلٹ دیا ہے، ٹیکنالوجی انسانی شناخت کو تشکیل دینے والی بنیادی قوت بن چکی ہے اور یہ ہماری بنیادی انسانیت کو بھی دربارہ متعین کررہی ہے۔ سوشل میڈیا اور گیمنگ کی بہ دولت، بغیر کسی رکاوٹ کے بین الشخصی (Interpersonal) رابطے کا طریقہ لازمی طور پر اس بات کو بدل دیتا ہے کہ ہم ’’بین الشخصی‘‘ اور اسی لیے ’’شخص‘‘ سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اس وجہ سے جسمانی قربت غیر اہم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا پنا وجود خیالاتی ہوا جا رہا ہے اور دوسروں کے ساتھ ہمارا تعامل بھی اسی پیرائے میں ہے۔
یہاں یورپ میں اس بابت مسلسل ڈیبیٹ کا عمل جاری ہے۔ حال ہی میں ملکۂ سویڈن کی سرپرستی میں کام کرنے والی ایک سوسائٹی کے زیرِ انتظام، موجودہ دور کے ٹیکنالوجی کے بچوں کی ذہنی صحت پر اثرات کے حوالے سے یک روزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ سکول لیول پر موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کے زور پر ہورہے بچوں کی نفسیاتی تغیر (Psychological Transition) کو سمجھا جائے۔ اس کے خط و خال کو واضح کیا جائے۔ اس کی وجوہات اور غیر واضح اثرات کو ٹٹولا جائے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے ذرائع اور سائل اور انفرادی و اجتماعی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو فروغ دیا جائے۔
کھانے کی میز پر سویڈن کی ایک رکنِ پارلیمینٹ (جو کہ ہفتے میں دو دن رضاکارانہ طور پر بچوں کی ذہنی نگہ داشت کے حوالے سوشل ورک بھی کرتی ہے) نے یہ تجربہ شیئر کیا کہ ایک 11 سالہ بچی نے ایک گیم کے کردار کے حوالے سے اپنی محبت کا قصہ بیان کیا اور یہ بات کرتے ہوئے مذکورہ رکنِ پارلیمنٹ نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس محبت کی شدت مجھے انسانوں کے درمیان جوانی کی محبت سے زیادہ محسوس ہوئی۔ میز پر بیٹھی ہوئی پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی چیئر پرسن اور دوسری خاتون ڈاکٹر،جو کہ Doctors without borders میں کام کررہی تھی اور تیمرگرہ دیر میں بھی رہ کر آئی تھی، نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ورائے انسانیت (Transhumanism) کا عفریت ہماری آیندہ نسلوں کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے اور اس میں ٹیکنالوجی کا کردار بہیمانہ ہے۔
یہ شاید اس بات کا عکس ہے کہ معاشرتی سوچ میں ایک بڑا تغیر آ رہا ہے۔ ہم اس سوچ کی طرف جا رہے ہیں کہ ہمارے جسم یعنی ہمارے حقیقی جسم اب ہماری شناخت کا بنیادی حصہ نہیں رہے۔ جب انسانی وقار اور تخلیقی مقصد ختم ہوجائے، تو ہمارے جسم محض ایک مادے کا ڈھیر بن جاتے ہیں، جسے ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہی سوچ ’’ٹرانس ہیومن ازم‘‘ کہلاتی ہے، جہاں انسان اپنی حدود کو ٹیکنالوجی کے ذریعے پار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’ٹرانس ہیومن ازم‘‘ اور ’’ٹرانس جینڈر ازم‘‘ میں ایک گہرا تعلق ہے۔ کیوں کہ دونوں انسانی حیاتیاتی حدود کو چیلنج کرتے ہیں۔
’’ٹرانس جینڈر ازم‘‘ جنس کے روایتی تصور کو بدلتا ہے، اور ٹیکنالوجی کا استعمال جسمانی اظہار کو فرد کی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں کیا جاتا ہے۔ ’’مارٹین روتھ بلیٹ‘‘ کی کتاب "From Transgender to Transhuman" اس تعلق کو بیان کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ٹیکنالوجی نے انسانی فطرت کو لچک دار بنا دیا ہے۔
یہ تحریکیں انسانیت اور معاشرتی اُصولوں پر اثر ڈالتی ہیں، اور ہمیں اپنی روایتی شناخت اور جسمانی وجود کے بارے میں دوبارہ دریافت کے حوالے سے ابھارتی ہیں۔ 
یہ سوچ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہم اپنی حیاتیاتی حقیقت سے دور جا رہے ہیں اور خود کو، دانستہ یا نادانستہ طور پر ٹیکنالوجی کے ذریعے نئے سرے سے تشکیل دے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، ہمیں فلسفے، سماجیات اور ثقافتی مطالعات کی روشنی میں مسلسل اس کے اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں، یہ ضروری ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کے بارے میں تفصیل سے بات کریں اور انسانیت کے بارے میں اپنے بنیادی سوالات پر غور کریں۔
 ..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے