اب علم نہیں، معلومات اکھٹی کرنے کا دور ہے

Blogger Rafi Sehrai

ایک دور تھا کہ لڑکوں کے لیے پرائمری پاس کرلینا اُن کے پڑھا لکھا ہونے کی سند سمجھا جاتا تھا، بل کہ پرانے دور کے پرائمری پاس بزرگ اکثر میٹرک پاس نوجوانوں کو مقابلے کا چیلنج دیا کرتے تھے۔ زیادہ تر ریاضی کے مضمون میں یہ چیلنج ہوا کرتا تھا۔ نوجوان اُن کا چیلنج قبول کرنے سے ہچکچاتے تھے اور اگر کوئی سرپھرا نوجوان طیش میں آکر چیلنج قبول کرنے کی غلطی کر بیٹھتا، تو وہ ہار جایا کرتا تھا۔ اِس کی وجہ اُس نوجوان کی نالائقی نہیں ہوتی تھی، بل کہ پرانے دور کا نصاب ہوتا تھا، جس میں ریاضی کے سوالات روزمرہ زندگی کے حساب کتاب سے متعلق ہوتے تھے۔
جدید نصاب میں اعشاری نظام آگیا ہے۔ طلبہ کو درجن یا کوڑی کی تعداد کا ہی علم نہیں۔ اس کے علاوہ آپ میٹرک کی ریاضی اُٹھا کر دیکھ لیں۔ اس کا سلیبس روزمرہ زندگی کے حساب کتاب سے کوسوں دور نظر آئے گا۔ سلیبس ترتیب دینے والوں کے پیشِ نظر جانے کون سی ترجیحات ہوتی ہیں کہ وہ ایسا نصاب ترتیب دیتے ہیں، جس کا ہماری روزمرہ زندگی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی لیے نوجوانوں کو بزرگوں سے یہ طعنہ ضرور مل جاتا تھا کہ ’’توں تے چھولے دے کے پڑھیا ایں!‘‘ (تم نے چنے رشوت میں دے کر جماعتیں پاس کی ہیں۔)
جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم کا تعلق تھا، تو والدین کی اکثریت بچیوں کو سکول بھیجنے کے حق میں نہیں ہوتی تھی۔ مولوی صاحب سے قرآنِ پاک پڑھنے کے علاوہ کچی روٹی اور پکی روٹی نامی دو پمفلٹ پڑھ کر بچیاں تعلیم یافتہ کہلانے کی مستحق ٹھہرتی تھیں۔ جو بچی ’’احوال الآخرت‘‘ نامی کتاب پڑھ لیتی تھی، اُسے اعلا تعلیمِ یافتہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ اپنی ہم جولیوں میں عالمہ سمجھی جاتی تھی اور دین کے معاملے میں اُس کی کہی ہوئی بات اُس کی سہیلیوں کے لیے سند کا درجہ رکھتی تھی۔
’’کچی روٹی‘‘، ’’پکی روٹی‘‘ اور ’’احوال الآخرت‘‘ کا نصاب در اصل بیٹیوں کی تربیت کرتا تھا۔ یہ خالصتاً دینی پمفلٹ اور کتابیں تھیں، جن میں فرائض اور عبادات کے بارے میں بتایا گیا تھا اور اُن کو پڑھنے والی بچیوں کے کردار میں ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہونے کی جھلک نظر آتی تھی۔
یہ علم بچیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیب بھی سکھاتا تھا۔ اسی تعلیم کے سہارے جہاں وہ والدین کے گھر کو جنت بنا دیتی تھیں، وہیں پر سسرال میں بھی اپنے اچھے اعمال اور سگھڑاپے کے سبب عزت پاتی تھیں۔
پھر لوگوں میں شعور آ گیا۔ بچیوں کی تعلیم عام ہو گئی۔ وہ سکول کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں بھی جانے لگیں۔ اَب آج کی تعلیم یافتہ لڑکی دین کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتی ہے، جتنی معلومات شاید روایتی مولوی کے پاس بھی نہ ہوتی ہوں گی، مگر پرانی لڑکی اور آج کی لڑکی کی سوچ میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ پہلے دور کی لڑکی چھوٹی چھوٹی دینی کتابوں سے علم حاصل کرتی تھی اور پھر تازندگی اس پر عمل کرتی تھی۔ آج لڑکیوں کی بڑی تعداد علم حاصل نہیں کرتی، بل کہ معلومات اکٹھی کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر ڈگری حاصل کرلیتی ہے۔ اسی لیے وہ عمل سے بھی کوسوں دور ہے۔
ہاں، یہ ضرور ہوا ہے کہ دین کی طرف سے دیے گئے حقوق کا اُسے بہ خوبی علم ہو گیا ہے، مگر وہ اپنے فرائض سے غافل ہوگئی ہے۔ اسے یہ تو پتا ہے کہ شادی کے بعد کھانا پکانا یا ساس سسر کی خدمت کرنا اس پر واجب نہیں، مگر یہ نہیں جانتی کہ اُن کی خدمت کرنا کتنا مستحسن اور مستحب عمل ہے۔
دراصل وہ یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتی کہ کل کو اُسے بھی بوڑھا ہوکر بیٹے اور بہو کے رحم و کرم پر ہونا ہے، مگر یہ بات اُسے سمجھائے کون؟
ہندوستانی ڈراموں کی یلغار نے آج کی نسل کو بھٹکا کر رکھ دیا ہے۔ وہ اندھا دھند ہندوانہ کلچر کی تقلید میں لگ کر دین و مذہب کی تعلیمات اور روایات سے دامن چھڑا رہی ہے۔ اُس نے اسناد اور ڈگریاں تو حاصل کرلی ہیں، لیکن شعور اور تہذیب سے کوسوں دور ہو گئی ہے۔ بے عمل تعلیم نے ’’کچی روٹی‘‘ اور ’’پکی روٹی‘‘ والیوں کو آج کی نسل پر فوقیت دلا دی ہے۔
چلتے چلتے عربی سے ترجمہ شدہ ایک واقعہ پڑھ لیجیے:
شیخ محمد راوی سے ایک عورت نے سوال پوچھا کہ اُن کے شوہر کی والدہ بیمار رہتی ہے۔ شوہر تقاضا کرتا ہے کہ مَیں اُن کی ماں کی خدمت کیا کروں، مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔ کیا مجھ پر شوہر کی ماں کی خدمت واجب ہے؟ شیخ نے جواب دیا: ’’نہیں، تجھ پر شوہر کی ماں کی خدمت ہرگز واجب نہیں۔ ہاں! البتہ تمھارے شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرے۔‘‘
پھر شیخ نے تین حل پیش کیے:
پہلا حل یہ ہے کہ والدہ کو گھر لے کر آئیں اور دن رات آپ کے شوہر اور اُس کے بچے اپنی ماں اور دادی کی خدمت کریں۔ اُن پر یہ واجب ہے یاد رکھیں! آپ پر واجب نہیں۔
دوسرا حل یہ ہے کہ والدہ کو آپ کا شوہر الگ گھر میں رکھے اور اُن کی دیکھ بھال اور خدمت و خبر گیری کے لیے وہاں جاتا رہے۔ اگر والدہ یہ تقاضا کرے کہ رات اُن کے سرہانے گزارے، تو ماں کے پاس رات رُکنا اُن پر واجب ہے۔ یاد رکھیں! آپ پر واجب نہیں۔
تیسرا حل یہ ہے کہ والدہ کی دیکھ بھال کے لیے آپ کا شوہر ایک نرس رکھ لے۔ اگر نرس کے لیے تنخواہ دینے میں حرج ہو، تو گھر کے اخراجات کم کر کے نرس کی تنخواہ دے، نرس کی موجودگی میں والدہ کے پاس آتے جاتے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہو، تو نرس سے شادی کرنا واجب ہوگا۔ اس طرح وہ تین نیکیوں کو جمع کرے گا۔ دوسری شادی کا اجر، ماں کی خدمت کا اجر اور فتنے سے بچنے کا اجر۔ البتہ آپ پر شوہر کی ماں کی خدمت واجب نہیں۔ لہٰذا آپ عزت کے ساتھ اپنے گھر رکی رہیں۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد عورت بولی: ’’شیخ صاحب! شوہر کی ماں بھی میری ماں جیسی ہے۔ واجب نہیں، تو مستحب ہی سہی۔ مَیں خود اُس کی خدمت کروں گی!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے