(فضل رازق شہابؔ صاحب کی انگریزی میں لکھی گئی خود نوشت "Never Ever Dream Again” کا اُردو ترجمہ، جسے لفظونہ ڈاٹ کام پر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے)
آئیں! 1944ء کی طرف واپس چلتے ہیں۔ یہ ریاستِ سوات کی تاریخ میں ایک انقلابی سال تھا۔ اس سال نے ’’وزیر برادران‘‘ کا زوال دیکھا اور ترقی، خوش حالی اور امن کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ چار پانچ سال کی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جوابی کارروائیوں کا دور وزیر خاندان کی جَلا وطنی کے ساتھ ختم ہوا۔ بڑے وزیر (مشر وزیر) حضرت علی، جب اُنہیں لگا کہ اُن کا کھیل ختم ہوگیا ہے، وہ کشمیر جانے کے لیے چھٹی کے بہانے ریاست سے کھسک گئے۔
وہی سے اُس نے اپنا استعفا بہ راہِ راست بادشاہ صاحب (میانگل عبدالودود/ سوات کے حکم ران) کو نہیں بل کہ اُس وقت کے گورنر صوبۂ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کو بھیجا اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اُسے بادشاہ صاحب کو بھجوا دیں اور اپنے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنانے کی درخواست کی۔ اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بادشاہ صاحب سے ملنے اور ریاست چھوڑنے کی اجازت لینے کی ہدایت بھی کی۔
اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے، وہ بادشاہ صاحب کے دفتر میں گئے اور کہا، ’’میرے آقا! ہم آپ کے عاجز خدمت گزار تھے اور آپ کی اور ریاست کی مقدور بھر خدمت کی۔ ہم باہر کے لوگ تھے جن کی جڑیں سوات میں نہیں تھیں، لیکن آپ کی سرپرستی نے ہمیں سوات کے ممتاز خاندانوں میں سے ایک بنا دیا۔ ہمارے والد کو قاشقار ملا کہا جاتا تھا، آپ نے ہمیں عزت و تکریم بخشی۔‘‘
مشر وزیر نے سوات کے حکم ران سے مزید کہا کہ اب اُنھیں عزت اور حفاظت کی ضمانت کے ساتھ باوقار طریقے سے سوات چھوڑنے کی اجازت دے کر اُن پر ایک اور احسان کر دیں۔ اُنھوں نے بادشاہ صاحب، اور شہزادہ جہان زیب کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ چناں چہ اُنھیں تمام منقولہ دولت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی۔
عبدالغفور پہلوانوں کی طرح مضبوط آدمی تھا، میرے والد جب بھی شیر خان کے بارے میں بات کرتے، تو چچا غفور کے بارے میں بھی بتاتے تھے۔ چناں چہ چچا غفور ہمارے لیے دور دراز جزیروں کے ایک کردار بن گئے، جنھیں روحانی طاقتوں نے ہمارے شہزادہ شیر خان کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا۔ اُن خونیں سالوں کے بارے میں میرے ذہن میں کوئی واضح تصور نہیں تھا۔ محض 4 سال کا ایک بچہ، بس اپنے اِردگرد کو بڑی آنکھوں سے دیکھتا ہے، لیکن کچھ عرصے کے بعد مجھے معلوم ہو ہی گیا کہ ہمارے شہزادے اور اس کے محافظ کے ساتھ کیا ہوا تھا!
شیر خان کو چاچا اور دوسرے پٹھانوں نے کَہ رکھا تھا کہ وہ بمبئی کے اسی ’’فراموش کردۂ خدا‘‘ کچی آبادیوں میں رہے، اور ’’حجرے‘‘ سے باہر اکیلے نہ نکلے۔ ایک دن اُنھیں ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے اکیلے دیکھ لیا اور چاقوؤں کے ساتھ اُن پر چڑھ دوڑے۔ خوش قسمتی سے چچا غفور قریبی گلی سے نمودار ہوئے اور اُن ہندوؤں کو للکارا۔ وہ اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔ غفور چچا نے شیر خان سے کہا کہ وہ بھاگ جائے اور اُنھیں حملہ آوروں سے نمٹنے دے۔ شیر خان، جو کہ اُس وقت 18 سال کے تھے، پہلے تو ہچکچائے، لیکن پھر جان بچانے کی خاطر بھاگ نکلے۔ چاچا غفور نے، اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑتے ہوئے، دو ہندوؤں کو مار ڈالا، مگر لمبے دھاروں والے چاقوؤں کے ڈھیر سارے واروں کی تاب نہ لاسکے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
40ء کی دہائی کے اوائل کی بات ہے، ہمارے ایک پڑوسی سیف الملوک نام کے، اُس وقت کے ولی عہد شہزادہ جہان زیب کے دفتر میں ذاتی کلرک تھے۔ وہ اُن پر بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے اور یہاں تک کہ اُن کی ذاتی اُردو خط و کتابت بھی اُن کی ذمے تھی۔ اُن کی والدہ جو کہ ایک بہت ہی معزز خاتون تھیں، شیر خان پر بہت مہربان تھیں۔ اتنی کم عمری میں اُن کے گھر سے نکلنے پر وہ حیران رہ گئی اور اُن کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتیں۔
تقسیم کے بعد، شیر خان نے ہندوستانی شہریت کا انتخاب کیا، جس کا مطلب تھا کہ ہم نے اُنھیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا ۔ اُنھوں نے میرے والد سے باقاعدہ خط و کتابت جاری رکھی اور والد صاحب کی مدد کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن زندگی اُن کے لیے بھی اتنی آسان نہیں تھی۔ پھر بھی اُنھوں نے ہماری تعلیم میں بہت دل چسپی لی اور اکثر میرے اور میرے بڑے بھائی کے لیے نوٹ بکس بھیجتے رہے۔ وہ اب بھی ریلوے لائن کے ساتھ جھونپڑیوں کی اُس کچی بستی میں رہ رہے تھے اور صحت کے مسائل کا شکار ہوگئے تھے، مگر وہ کبھی پاکستان واپس نہیں آئے۔
اُن کی شادی ایک پٹھان خاندان میں ہوئی تھی، جو احمد آباد انڈیا میں مقیم تھا۔ اصلاً تعلق خوازہ خیلہ، سوات سے تھا۔ میرے والد صاحب نے میرے بڑے بھائی فضل وہاب کو شیر خان کو سوات واپس آنے پر راضی کرنے کے لیے ممبئی بھیجا تھا، لیکن اُنھوں نے انکار کردیا اور میرے بھائی 60ء کی دہائی کے اوائل میں شیر خان کو واپس لائے بغیر واپس آگئے۔ میرے بھائی نے میرے والد کو اُن کی خراب صحت کے بارے میں بتایا اور یہ بھی، کہ وہ بالکل بھی پہچانے نہ جاتے تھے۔ اُن کے خط و خال میں اُن کی شان دار خوب صورتی کے کوئی نشان نہیں تھے۔ میرے والد نے اللہ کی رضا کے آگے سرِ تسلیم خم کرلیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں بہ راہِ راست رابطہ بھی ختم ہوگیا۔ ہمیں پہلے ’’جنیوا ریڈ کراس‘‘ کے ذریعے ایک یا دو خط موصول ہوئے، لیکن پھر وہ بھی آنا بند ہوگئے ۔ کچھ مہینوں کے وقفے کے بعد کسی واسطے کے ذریعے ایک خط سے خبر ملی کہ شیر خان کا انتقال حرکتِ قلب بند ہونے سے ہو گیا ہے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔