اگر کسی غریب یا عام شخص سے اُس کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ منہا کیا جائے اور اعلا ترین تعلیم کا موقع دیا جائے۔ اگر بے گھر کو مفت رہایش فراہم کی جائے۔ اگر ہر شخص کو علاج کے بہترین اور مفت مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر یوٹیلیٹی بِل (بجلی، گیس) کے بوجھ ختم کیے جائیں۔ اگر ہر شخص کو با عزت روزگار فراہم کیا جائے۔ اگر اس کو یکساں شہری تسلیم کیا جائے، تو کیسا ہوگا؟
ایسا ہوا، مگر یہ منافع پر حملہ تھا۔ سرمایہ دار کی موت تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا جنازہ تھا۔ یہ وہ فلسفہ تھا جو کارل مارکس نے داس کیپٹل سرمایہ میں تحریر کیا۔ یورپ نے اس پر زمین تنگ کی، جہاں جرمنی، فرانس، بلجیم وغیرہ کو سامنے رکھ کر یہ نظریہ دیا گیا تھا…… مگر 1917ء میں سوویت یونین میں اس انقلاب نے دنیا کو بدل دیا۔ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے قیام نے محنت کشوں کی حکومت قائم کی۔ سوویت یونین، زار روس اور آرتھوڈکس چرچ کے جابرانہ قبضے میں تھا۔ زار کے ہر ظالمانہ حکم کو چرچ کی حمایت حاصل تھی۔ زار کے ہر فیصلے کو قسمت و تقدیر بناکر پیش کیا جا رہا تھا۔
سوویت یونین کے مزدوروں، محنت کشوں اور کسانوں نے یک جا ہوکر اس گھٹ جوڑ کو توڑا۔ تخت گرائے گئے۔ تاج اُچھالے گئے۔ خلق خدا، خدا کی پیدا کردہ دنیا کے وارث ٹھہرے۔ سوشلسٹ انقلاب برپا ہوگیا۔ اشتراکیت کو مملکت مل گئی۔ ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ کے غریب ممالک سرمایہ دارانہ اور استعماری طاقتوں سے آزاد ہونے کے لیے تحریک شروع کر گئے۔ نہ قوم پرستی، نہ وطن پرستی اور نہ نسل پرستی ہی کسی کو آزادی سے روک سکتی تھی۔ افریقہ میں تبدیلی شروع ہوئی، سرمایہ آیا، ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ یورپ گھٹن سے نکلنے لگا۔ لاطینی امریکہ غربت اور ظلم سے آزاد ہونے لگا۔ پہلی جنگِ عظیم سوشلسٹ انقلاب کا راستہ نہ روک سکی۔ دوسری جنگ عظیم نے اشتراکیت کو مشرقی یورپ تک پہنچا دیا۔ مشرقی جرمنی، پولینڈ، یوگوسلاویہ، چیکو سلواکیہ وغیرہ سوشلسٹ انقلاب سے بحرہ مند ہوئے۔ مصر، لبنان اور ایتھوپیا سمیت کئی افریقی ممالک استعمار سے آزاد ہونے لگے۔ چین میں ماؤ زے تنگ 1948ء میں سوشلسٹ ریپبلک قائم کرچکا۔ کوریا انقلاب قبول کرچکا۔ افغانستان سرخ انقلاب کا داعی بنا۔ ہندوستان میں پہلے ہی بھگت سنگھ پیدا ہو رہے تھے۔ انقلاب کے نام پر شہید کر دیے گئے تھے۔ سامراجی طاقتوں اور قوتوں کو سرمایہ دارانہ نظام اور اقتدار بچانا تھا۔ جاپان، برطانیہ، فرانس، اسٹریلیا، امریکہ، سعودی عرب، قطر، کویت اور ہر ظالم حکومت اور بادشاہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔
مذہب کو مقابل لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ عیسائی دنیا میں انجیل کی مشہور آیت ’’حکم ران کو حکم ران کا حق دو اور اللہ کو اللہ تعالا کا حق دو!‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان: ’’حکم ران اللہ تعالا مقرر کرتا ہے!‘‘ چرچوں سے گونجنے لگا۔
دوسری طرف اشتراکیت کو کافر اور سوشلزم کو شیطان کی آواز کہا گیا۔ ایشیا میں فوجی آمریتوں کو طاقت دی گئی۔ پاکستان میں ضیاء الحق، بنگلہ دیش میں ضیاء الرحمان، انڈونیشیا میں سویکارینو، فلپائن میں مارکوس، افغانستان میں شاہ اور ایران میں رضا شاہ پہلوی سوشلسٹ انقلاب کے خلاف داعی بنے۔
سوشل ازم اور کمیون ازم کے معنی لادینیت کر دیے گئے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کو کرائے پر لے کر جھوٹ اور اخلاق باختہ پروپیگنڈا کیا گیا۔ غریب اور محنت کش کو یقین دلایا گیا کہ یہ انقلاب ’’مذہب پر حملہ‘‘ ہے۔
وہ بے چارا جو ٹی وی کا صرف سوچ ہی سکتا تھا، کچھ رقم میں روسی ٹی وی گھر لے آیا۔ ریفریجریٹر بھی عام گھر میں پہنچا۔ روسی مصنوعات جو منافع نہیں ضرورت کی بنیاد پر بنائی جاتی تھیں، ہر غریب کی ضرورت پورا کرنے لگیں۔ اور پھر 80ء کی دہائی میں پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا اور پوری سرمایہ دار اور بادشاہت والی دنیا ’’سوویت یونین‘‘ پر یلغار کرگئی ۔ انسانی فلاح کے لیے کام کرنے والا نظام، انسانی، وطن اور نظام کے دفاع پر لگ گیا۔ دہائیوں طویل جنگ نے غریب کے خواب چکنا چور کر دیے۔ پس ماندہ سوویت یونین ’’سپر طاقت‘‘ بن گیا تھا۔ سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیم، زراعت اور معیشت کے میدان میں جھنڈے گاڑ گیا تھا، مگر سرمایہ داروں، بادشاہت اور مذہبی پنڈتوں کے ہاتھوں شکست کھا کر تحلیل ہوگیا۔
مگر اتنا شعور دے گیا کہ دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے ملک کے پارہ پارہ ہوتے ہوئے بھی ایک شخص کو خراش تک نہیں آئی۔ سرمایہ دار اپنی تمام تر شیطانیت کے ساتھ بلا شرکتِ غیرے دنیا کے مالک بن گئے۔ بادشاہوں کو اپنی سلطنت بچانے کا موقع ملا اور مذہبی پنڈتوں کو ڈالروں میں تولا گیا۔
پروپیگنڈا کیا گیا کہ سوشل ازم روس میں ناکام ہوا، مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک ’’کولڈ وار‘‘، ’’فیلڈ وار‘‘ اور ’’سٹار وار‘‘ کرتے کرتے سوشلسٹ انقلاب کو جاری رکھنے میں ناکام ہوا۔ یہ سوشل ازم نہیں سوویت یونین کی ناکامی تھی۔ یہ مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں کی ناکامی تھی۔
سوشل ازم کو مذہب کے مقابل لاکر قصداً کھڑا کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ سوشلسٹ بھائی بہن کا رشتہ جائز ہوجاتا ہے۔ سوشلسٹ کو قرآنِ مجید کے اوپر (نعوذ باللہ) کھڑا کیا جاتا ہے۔
سوشل ازم کا مذہب سے اُتنا ہی تعلق ہے جتنا فزکس، اکنامکس، کیمسٹری، بیالوجی، آرکیالوجی، ہسٹری یا کسی بھی علم کا ہے۔
یوں دھوکے باز اور چالاک سرمایہ دار جیت گئے، مگر کارل مارکس نے لکھا تھا کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی خامی یہ ہے کہ یہ خود بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔‘‘
دنیا ہر سال ایک نئے معاشی، معاشرتی، اقتصادی، اخلاقی، صحت اور امن کے بحران کا شکار بنتی ہے۔ سرمایہ دارنہ نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ پھر کچھ سرمایہ دار سرمایہ کمانے کے چکر میں جھوٹ بول کر حل نکالنے کا دعوا کرتے ہیں۔ اس سے نمٹا ہی نہیں جاتا کہ دوسرا بحران کھڑا ہوجاتا ہے۔
آج دنیا میں بھوک ہی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے، جب کہ دنیا میں ہر وقت 10 اَرب افراد کی خوراک وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے اور پوری دنیا میں ساڑھے سات ارب لوگ رہتے ہیں۔ تو بھوک سے مرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا، مگر ہر سال گندم سمندر برد کی جاتی ہے یا کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی جاتی ہے، تاکہ قیمتیں ’’مستحکم‘‘ رہیں۔
انرجی کا مسئلہ ہے، مگر اتنی انرجی پیدا کی جاتی ہے کہ چند ممالک کی جی ڈی پی بلند رہے۔ اتنا بلڈنگ میٹریل موجود ہے کہ ہر جوڑے کو آرام دہ مکان مل سکتا ہے، مگر ایک عالم بے گھر ہے۔
سوشلزم کافر نہیں، نہ مذاہبِ عالم کے مقابل ہی ہے، بل کہ یہ مذاہب کے فلسفۂ خدمتِ انسانیت کے قریب ترین ہے۔ اس کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام مذاہبِ عالم کی ضد ہے، متضاد ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔